Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

294 - 448
یعفو الاولیاء ولا کفارة فیہ ]٢٢٩٦[(٣)وشبہ العمد عند ابی حنیفة رحمہ اللہ ان یتعمَّد الضرب بما لیس بسلاح ولا ما اجری مجراہ وقالا رحمھما اللہ اذا ضربہ بحجر عظیم 

(بخاری شریف ، باب قول اللہ تعالی ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاء ہ جھنم ص ١٠١٤ نمبر ٦٨٦١)
اور عمد کا بدلہ قصاص ہے۔اس کی دلیل اوپر کی آیت۔ یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی الحر بالحر والعبد بالعبد والانثی بالانثی فمن عفی لہ من اخیہ شیء فاتباع بالمعروف (الف) (آیت ١٧٨ سورة البقرة) اس آیت سے اس بات کا پتا چلا کہ قتل عمد کا بدلہ قصاص ہے۔اور یہ بھی پتا چلا کہ اولیاء معاف کرنا چاہے تو معاف کر سکتے ہیں(٢) اوپر یہودی والی حدیث بھی گزری کہ باندی کو پتھر سے مارنے کی وجہ سے قصاص کے طور پر یہودی کا سر کچلا گیا۔
قتل عمد میں کفارہ نہیں ہے۔کیونکہ قتل عمد کے تذکرے کے وقت قرآن میں کفارہ کا تذکرہ نہیں ہے۔آیت یہ ہے۔ ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جھنم خالدا فیھاوغضب اللہ علیہ ولعنہ واعد لہ عذابا عظیما (ب) (آیت ٩٣ سورة النساء ٤) اس میں مومن کے قتل عمد میں عذاب کا تذکرہ ہے اور پہلی آیت میں قصاص کا تذکرہ تھا۔اس لئے اس میں کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ البتہ قتل خطا میں کفارہ لازم ہوگا۔
فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ جس طرح قتل خطا میں کفارہ لازم ہوتا ہے قتل عمد میں بھی کفارہ لازم ہوگا۔کیونکہ قتل عمد قتل خطا سے عظیم ہے۔
]٢٢٩٦[(٣)اور شبہ عمد امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ ہے کہ ایسی چیز سے جان کر مارے جو ہتھیار نہ ہو اور نہ قائم مقام ہتھیار ہو۔ اور صاحبین فرماتے ہیں کہ اگر آدمی کو بڑے پتھر سے مارے یا بڑی لکڑی سے مارے تو وہ قتل عمد ہے۔اور شبہ عمد یہ ہے کہ جان کر ایسی چیز سے مارے جس سے عموما آدمی مرتا نہ ہو۔  
تشریح  اوپر حدیث مرسل سے ثابت کیا کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک قتل عمد کے لئے ضروری ہے کہ دھاردار چیز سے مارے۔اس لئے جو دھاردار نہ ہو یا ہتھیار نہ ہو یا قائم مقام ہتھیار نہ ہو اس سے جان کر مارا تو قتل عمد نہیں ہوگا بلکہ قتل خطا ہوگا۔ اور اس سے قصاص نہیں بلکہ دیت لازم ہوگی۔جیسے بڑے پتھر سے مارا تو و ہ قتل خطا ہوگا۔کیونکہ دھاردار نہیں ہے ۔لیکن اگر پتھر دھاردار ہو تو ہتھیار کے قائم مقام ہو کر قتل عمد ہوگا۔حدیث گزر چکی ہے۔ عن النعمان بن بشیر ان رسول اللہ ۖ قال لاقود الا بالسیف (ج) (ابن ماجہ شریف، باب لا قود الا بالسیف ص ٣٨٤ نمبر ٢٦٦٧ دار قطنی ، کتاب الحدود والدیات ج ثالث ص ٨٤ نمبر ٣١٥٠)
فائدہ  صاحبین فرماتے ہیں کہ کوئی بڑی چیز جس سے عموما موت واقع ہوتی ہو اس سے جان کر مارے تو قتل عمد ہوگا۔ اور ایسی چیز سے مارے 

حاشیہ  :  (پچھلے صفحہ سے آگے) آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ ! کونسا گناہ اللہ کے نزدیک بڑا ہے؟ فرمایا یہ اللہ کا شریک پکارے حالانہ اس نے تم کو پیدا کیا۔پوچھا پھر کونسا گناہ؟ پھر فرمایا کہ اس ڈر سے کہ تمہارے ساتھ کھائے اپنی اولاد کو قتل کرے(الف) اے ایمان والو تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے مقتول کے بارے میں۔آزاد آزاد کے بدلے ،غلام غلام کے بدلے،مؤنث مؤنث کے بدلے ۔پس کسی نے معاف کر دیا اپنے بھائی کو کچھ تو معروف کے ساتھ پیچھے جانا ہے(ب) کسی نے جان کر مومن کو قتل کیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے۔ اس میں ہمیشہ رہے گا۔اللہ کا اس پر غضب ہے اور اس کی لعنت ہے۔ اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کیا ہے(ج) آپۖ نے فرمایا نہیں قصاص لے مگر تلوار سے۔

Flag Counter