Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

293 - 448
تفریق الاجزاء کالمحدد من الخشب والحجر والنار وموجب ذلک الماثم والقود الا ان 

لکڑی اور دھار دار پتھر اور آگ اس سے قتل کرے۔ اس کا سبب گناہ ہے اور قصاص ہے۔ مگر یہ کہ قاتل کے اولیاء معاف کردیں اور اس میں کفارہ نہیں ہے۔  
تشریح  قتل عمد کے واقع ہونے کے لئے دو شرطیں ہیں۔ایک تو جان کر حملہ کرے اور دوسری شرط یہ ہے کہ ایسے ہتھیار سے حملہ کرے کہ عموما اس سے موت واقع ہو جاتی ہے اور اعضاء منتشر ہو جاتے ہیں۔ جیسے دھار دار لکڑی سے یا دھاردار پتھر سے مارے جس سے اعضاء منتشر ہو جاتے ہوں۔ اگر پتھر یا لکڑی دھار دار نہ ہوں تو اس سے قتل عمد ثابت نہیں ہوگا۔  
وجہ  اس کی دلیل یہ حدیث مرسل ہے۔ عن النعمان بن بشیر قال قال رسول اللہ ۖ کل شیء خطاء الا السیف ولکل خطاء ارش (الف) (سنن للبیہقی ،باب عمد القتل بالسیف او السکین او ما یشق بحدہ ج ثامن، ص ٧٦ نمبر ١٥٩٨١ مصنف ابن ابی شیبة ٦ فی الخطاء ماھو ج خامس، ص ٣٤٨ نمبر ٢٦٧٦٣ مصنف عبد الرزاق ، باب عمد السلاح ج تاسع ص ٢٧٣ نمبر ١٧١٨٢) اس حدیث مرسل سے معلوم ہوا کہ صرف تلوار سے یا تلوار جیسے دھار دار ہتھیار سے قتل عمد ثابت ہوتا ہے (٢) دوسری روایت میں ہے۔ عن الحسن قال قال رسول اللہ ۖ لاقود الا بحدیدة (ب) (مصنف عبد الرزاق ، باب عمد السلاح ج تاسع ص ٢٧٣ نمبر ١٧١٧٩ ابن ماجہ شریف ، بابل لا قود الا بالسیف ص ٣٨٤ نمبر ٢٦٦٧) اس حدیث مرسل سے معلوم ہوا کہ کسی بھی دھاردار سے قتل عمد ثابت ہوگا۔ چاہے وہ تلوار ہویا لکڑی یا پتھر۔
فائدہ  صاحبین کے نزدیک کسی دوسری بھاری چیز سے مارا جو دھار نہ بھی ہو لیکن اس سے عموما موت واقع ہوجاتی ہو تو اس سے قتل عمد ثابت ہوگا۔مثلا دھاردار نہیں ہے لیکن بھاری پتھر ہے یا بھاری لکڑی ہے تو اس سے بھی قتل عمد ثابت ہو جائے گا۔  
وجہ  ایک باندی کے سر کو ایک یہودی نے پتھرسے کچل دیا تھا تو آپۖ نے اس کا قصاص لیا تھا جس سے معلوم ہوا کہ بھاری پتھر سے مارے چاہے وہ دھاردار نہ ہو تب بھی قتل عمد ثابت ہوگا اور قصاص لیا جائے گا۔ حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔عن انس بن مالک قال خرجت جاریة علیھا اوضاح بالمدینة قال فرماھا یھودی بحجر ..... فدعا بہ رسول اللہ ۖ فقتلہ بین الحجرین (ج) (بخاری شریف ، باب اذاقتل بحجر او بعصا ص ١٠١٦ نمبر ٦٨٧٧ مسلم شریف ، باب ثبوت القصاص فی القتل بالحجر وغیرہ من المحددات والمثقلات ص ٥٨ نمبر ١٦٧٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بھاری پتھر سے مارے تب بھی قتل عمد ثابت ہوگا۔
قتل عمد سے گناہ ہوگااس کا ثبوت اس آیت میں ہے ۔ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاء ہ جہنم خالدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعد لہ عذابا عظیما (د) (آیت ٩٣ سورة النساء ٤) حدیث میں ہے۔قال عبد اللہ قال رجل یا رسول اللہ ای الذنب اکبر عند اللہ ؟ قال وان تدعوللہ ندا وھو خلقک۔قال ثم ای ؟ قال ثم ان تقتل ولدک خشیة ان یطعم معک (ہ) 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا ہر چیز سے قتل خطا ہے مگر تلوار سے اور خطا میں ارش ہے (ب) آپۖ نے فرمایا نہیں قصا ص ہے مگر لوہء سے(ج) انس بن مالک نے فرمایا ایک عورت مدینہ میں نکلی اس پر زیور تھے۔فرمایا اس کو یہودی نے پتھر سے مارا ..... تو حضورۖ نے اس کو دو پتھروں سے قتل کیا(د) جس مومن کو جان کر قتل کیا تو اس کا بدلہ جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہیںگے۔ اس پر اللہ کا غضب ہے اور اس کی لعنت ہے۔ اور اللہ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کیا ہے(ہ) کسی(باقی اگلے صفحہ پر) 

Flag Counter