Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

207 - 448
]٢١٢٦[ (٤٨) واذا طلق الذمی الذمیة فلا عدة علیھا]٢١٢٧[(٤٩) وان تزوجت 

اور کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔اس کی دلیل یہ اثر ہے۔ان عمر اتی بامرأة قد ولدت لستةاشھر فھم برجمھا فبلغ ذلک علیا فقال لیس علیھا رجم فبلغ ذلک عمر فارسل الیہ فسألہ فقال والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة ،وقال : وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا، فستة اشہر حملہ وحولین تمام لا حد علیھا او قال لا رجم علیھا فخلی عنھا ثم ولدت (الف) (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی اقل الحمل ج سابع، ص٧٢٧، نمبر ١٥٥٤٩ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔
]٢١٢٦[(٤٨)اگر ذمی مرد ذمیہ عورت کو طلاق دے تو اس پر عدت نہیں ہے۔  
وجہ  عدت ایک قسم کی عبادت ہے جس کا مخاطب مسلمان عورت ہے۔اس لئے ذمیہ عورت پر عدت نہیں ہے(٢) آیت میں اس کا اشارہ موجود ہے ۔والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثة قرو ء ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ والیوم الآخر (ب) (آیت ٢٢٨ سورة البقرة ٢) اس آیت میں عدت گزارنے کے بارے میں فرمایا اگر وہ اللہ اور یوم خرت پر ایمان رکھتی ہو۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان ہوتو اس پر یہ احکامات ہیں۔اس لئے کافرہ پر عدت نہیں ہے۔
]٢١٢٧[(٤٩)اگر زنا سے حاملہ شدہ عورت سے شادی کی تو نکاح جائز ہے لیکن اس سے وطی نہ کرے جب تک وضع حمل نہ ہوجائے۔  
تشریح  ایک عورت زنا کرانے کی وجہ سے حاملہ ہو گئی ہے تو اس سے کوئی شادی کرے تو شادی کرنا جائز ہے۔البتہ بچہ پیدا ہونے تک اس سے شوہر جماع نہ کرے۔  
وجہ  بچہ ثابت النسب نہیں ہے اس لئے اس سے شادی کرنا جائز ہے تاکہ اس کا گناہ چھپ جائے۔لیکن پیٹ میں دوسرے کا بچہ ہے اس لئے وطی نہ کرے (٢) حدیث میں ہے ۔ عن رویفع بن ثابت عن النبی ۖ قال من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلا یسق ماء ہ ولد غیرہ (ج) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الرجل یشتری الجاریة وھی حامل ص ٢١٤ نمبر ١١٣١ ابو داؤد شریف ، باب فی وطیٔ السبایا ص ٣٠٠ نمبر ٢١٥٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسرے کی حاملہ عورت سے وطی کرنا جائز نہیں ہے۔اور زنا سے حاملہ عورت سے شادی کرنا جائز ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔یقال لہ بصرة قال تزوجت امرأٔة بکرا فی سترھا فدخلت علیھا فاذا ھی حبلی فقال النبی 

حاشیہ  :   (الف) حضرت عمر کے پاس ایک عورت لائی گئی جس نے شادی کے بعد چھ ماہ میں بچہ دیا تھا۔پس اس کے رجم کرنے کا ارادہ کیاتو یہ خبر حضرت علی کو پہنچی۔تو انہوں نے فرمایا اس پر رجم نہیں ہے۔پس یہ خبر حضرت عمر کو پہنچی تو حضرت علی کو بلایا اور ان کو پوچھا ۔انہوں نے فرمایا کہ آیت میں ہے کہ مائیں اپنی اولاد کو مکمل دو سال دودھ پلائیں جو رضاعت کو پوری کرنا چاہیں۔اور آیت میں فرمایا حمل اور دودھ پلانا تیس مہینے کا ہوتا ہے۔پس چھ ماہ حمل کے اور دو سال مکمل ۔اس پر حد نہیں ہے یا فرمایا اس پر رجم نہیں ہے۔پس حضرت عمر نے عورت کو چھوڑ دیا(ب) طلا ق شدہ عورتیں ١پنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں اور ان کے لئے حلال نہیں ہے کہ چھپائے جو ان کے رحموں میں اللہ نے پیدا کیا اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں(ج) آپۖ نے فرمایا جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنا پانی دوسرے کے بچے کو نہ پلائے۔

Flag Counter