Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

204 - 448
اشھر لم یثبت نسبہ]٢١٢٠[(٤٢) واذا ولدت المعتدة ولدا لم یثبت نسبہ عند ابی حنیفة رحمہ اللہ الا ان یشھد بولادتھا رجلان او رجل وامرأتان الا ان یکون ھناک حبل 

ختم ہونے کے بعد حمل ٹھہرا ہو (٢) اثر میں ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہیں۔ان عمر اتی بامرأة قد ولدت لستة اشھر فھم برجمھا فبلغ ذلک علیا فقال لیس علیھا رجم فبلغ ذلک عمر فارسل الیہ فسألہ فقال والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة وقال تعالی وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا،فستة اشھر حملہ وحولین تمام لاحد علیھا او قال لا رجم علیھا فخلی عنھا ثم ولدت (الف) (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی اقل الحمل ج سابع، ص٧٢٧، نمبر ١٥٥٤٩) اس اثر میں ہے کہ قرآن کریم میں دودھ پلانے اور حمل کی مجموعی مدت تیس مہینے قرار دی ہے۔اور دوسری آیت میں دودھ پلانے کی مدت دو سال بتائی ہے جس کا حاصل یہ ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ رہ گئی ۔اس لئے حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔
]٢١٢٠[(٤٢) جب معتدہ بچہ دے تو نہیں ثابت ہوگا امام ابو حنیفہ کے نزدیک مگر یہ کہ اس کی ولادت کی گواہی دے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں،مگر یہ کہ حمل ظاہر ہو یا شوہر کی جانب سے اعتراف ہوتو اس کا نسب ثابت ہوگا بغیر شہادت کے ۔
 تشریح  امام ابو حنیفہ کی رائے یہ ہے کہ عدت گزارنے والی عورت چونکہ شوہر کی بیوی نہیں رہی اور اب مکمل فراش نہیں رہی اس لئے اس کے بچے کا نسب تو ثابت کیا جائے گا لیکن تین باتوں میں سے ایک ہوتو نسب ثابت کیا جائے گا۔ایک تو یہ کہ بچہ پیدا ہونے پر دو مرد گواہی دیں ،یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں۔دوسرا یہ کہ حمل ظاہر ہو جس سے معلوم ہوتا ہو کہ کسی وقت بچے کی ولادت ہو سکتی ہے ،اس صورت میں بھی ولادت ہونے پر بغیر گواہی کے بھی نسب ثابت ہو جائے گا۔اور تیسری شکل یہ ہے کہ شوہر اعتراف کرے کہ یہ حمل میرا ہے تو پھر ولادت پر گواہی کے بغیر بھی اس کا نسب باپ سے ثابت کیا جائے گاتاہم ایک عورت کی گواہی سے نسب ثابت نہیں ہوگا۔  
وجہ  (١) عدت گزار رہی ہے اس لئے وہ شوہر کی مکمل فراش نہیں ہے ۔اس لئے ثبوت نسب کے لئے ولادت پر مکمل گواہی چاہئے (٢) اثر میں ہے ۔عن علی قال لاتجوز شھادة النساء بحتا فی درھم حتی یکون معھن رجل (ب) (مصنف عبد الرزاق ،باب شھادة المرأة فی الرضاع والنفاس ج ثامن ص ٣٣٢ نمبر ١٥٤١٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ صرف عورت کی گواہی ولادت کے بارے میں بھی قابل قبول نہیں ہے (٣) آیت میں ہے کہ معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی چاہئے ۔واستشھدوا شہیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشھداء (ج) (آیت ٢٨٢ سورة البقرة٢) اور یہ چونکہ معاملہ ہے اس 

حاشیہ  :  (الف)حضرت عمر کے پاس ایک عورت لائی گئی جس کو شادی کے بعد چھ مہینے میں بچہ ہوا تھا تو انہوں نے اس کو رجم کرنے کا ارادہ کیا۔پس یہ بات حضرت علی کو پہنچی تو فرمایا اس پر رجم نہیں ہے۔حضرت عمر کو خبر پہنچی تو ان کو بلوایا تو حضرت علی نے فرمایا آیت میں ہے کہ مائیں اپنی اولاد کو دو سا ل تک دو دھ پلائے جو مدت رضاعت کو پوری کرنا چاہے۔اور اللہ تعالی نے فرمایا حمل اور دودھ چھڑانا تیس مہینے تک ہے۔پس چھ ماہ حمل کے ،باقی دو سال مکمل رہے۔اس لئے اس پر حد نہیں ہے یا فرمایا اس پر رجم نہیں ہے، پس حضرت عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا(ب) حضرت علی نے فرمایا صرف عورتوں کی گواہی ایک درہم کے بارے میں بھی جائز نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ مرد نہ ہو (ج) تمہارے مردوں میں سے دو گواہ بناؤ ،پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ،جن کی گواہی سے تم راضی ہو۔

Flag Counter