Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

182 - 448
]٢٠٧٦[(١٨) واذا نفی الرجل ولد امرأتہ عقیب الولادة اوفی الحال التی تقبل التھنیة فیھا او تبتاع لہ آلة الولادة صح نفیہ ولاعن بہ وان نفاہ بعد ذلک لاعن ویثبت النسب وقال ابو یوسف و محمد رحمھما اللہ تعالی یصح نفیہ فی مدة النفاس۔
 
سہل بن سعد اخی بنی ساعدة ... وکانت حاملا وکان ابنھا یدعی لامہ (الف) (بخاری شریف، باب التلاعن فی المسجد ص ٨٠٠ نمبر ٥٣٠٩  ابو داؤد شریف، باب فی اللعان ص ٣١٣ نمبر ٢٢٥٩) اس حدیث میں حمل کو نفی کرکے ماں سے ملا دیا ہے۔
]٢٠٧٦[(١٨)اگر نفی کی شوہر نے بیوی کے بچے کی ولادت کے بعد یا اس حالت میں جس میں مبارکبادی قبول کی جاتی ہے یا ولادت کا سامان خریدا جاتا ہے تو اس کی نفی صحیح ہوگی اور لعان کرے گا۔اور اگر نفی کی اس کے بعد تولعان کرے گا اور نسب ثابت ہوگا۔اور صاحبین فرماتے ہیں کہ اس کی نفی کرنا صحیح ہے نفاس کی مدت میں ۔
 تشریح  شوہر بچے کا انکار ولادت کے فورا بعد کرتا ہے کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے،یا ایسے وقت تک کرتا ہے جب ولادت کا سامان خریدا جا رہا ہو ،یا بچہ پیدا ہونے پر جب لوگ مبارک بادی دے رہے تھے اس زمانے میں انکار کیا تو لعان ہوگا اور بچے کا نسب باپ سے منقطع کر دیا جائے گا۔اور اگر اس زمانے تک کچھ نہیں بولا اور اس کے بعد بچے کا انکار کیا تو لعان ہوگا اور بچے کا نسب باپ سے ہی ثابت کیا جائے گا۔  
وجہ  یہ مسئلہ اس قاعدے پر ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد عملا بچے کا انکار نہیں کیا بلکہ خاموش رہا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچہ میرا ہے اور بعد میں انکار کیا تو اقرار کے بعد انکار کرے تو بچے کا نسب باپ سے ثابت ہوگا۔اور چونکہ عورت پر زنا کی تہمت لگائی ہے اس لئے لعان بھی ہوگا (٢) اثر میں ہے۔عن عمر انہ قضی فی رجل انکر ولد امرأتہ وھو فی بطنھا ثم اعترف بہ وھو فی بطنھا حتی اذا ولد انکرہ فامر بہ عمر بن الخطاب فجلد ثمانین جلدة لفریتہ علیھا ثم الحق بہ ولدھا (ب)(سنن للبیہقی ، باب الرجل یقر بحبل امرأتہ او بولدھا مرة فلا یکون لہ نفیہ بعدہ ج سابع، ص ٦٧٦، نمبر ١٥٣٦٧) اس اثر میں ایک مرتبہ اقرار کے بعد بچے کا انکار کیا تو حضرت عمر نے حد لگائی اور بچے کو باپ کے ساتھ ہی ملحق کر دیا۔جس سے معلوم ہوا کہ عملاً بھی اقرار کیا تو اس کے بعد انکار نہیں کر سکتا (٣) ایک اور اثر میں ہے۔ان شریحا قال فی الرجل یقر بولدہ ثم ینکر یلاعن فبلغ ذلک عمر بن الخطاب فکتب الیہ ان اذا اقربہ طرفہ عین فلیس لی ان ینکر (ج) (مصنف عبد الرزاق ، باب الرجل ینتفی من ولدہ ج سابع ص ١٠٠ نمبر ١٢٣٧٥) اس اثر میں ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی بچے کا اقرار کر لیا تو پھر اس کا انکار نہیں کر سکتا۔بچہ اسی کا ہوگا۔اور یہاں خاموش رہا ہے اس لئے عملاً اقرار ہوا اس لئے بچے 

حاشیہ  :   (الف)بنی سعد کے سلسلے میں  ہے ... عورت حاملہ تھی اور اس کا بیٹا ماں کے نام سے پکارا جاتا تھا(ب) حضرت عمر نے ایک آدمی کے بارے میں فیصلہ کیا جس نے اپنی بیوی کے بچے کا انکار کیا اس حال میں کہ وہ پیٹ میں تھا۔پھر اس کا اقرار کیا اس حال میں کہ وہ پیٹ میں تھا۔یہاں تک کہ جب پیدا ہوا تو اس کا انکار کیا تو حضرت عمر نے حکم دیا کہ اسی کوڑے ماروعورت پر تہمت لگانے کی وجہ سے۔ پھر عورت کے بچے کو باپ کے ساتھ ملحق کردیا(ج) حضرت شریح نے ایک آدمی کے بارے میں کہا کہ اپنے بچے کے بارے میں اقرار کرے پھر انکار کرے تو لعان کرے گا۔یہ بات حضرت عمر کو پہنچی تو انہوں نے حضرت شریح کو لکھا کہ کہ اگر ایک لمحے کے لئے اقرار کیا تو اس کے لئے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔

Flag Counter