Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

165 - 448
محمد رحمھما اللہ یجزیہ ان کان المعتق موسرا وان کان معسرا لم یجز ]٢٠٤٥[(٢٤)وان اعتق نصف عبدہ عن کفارتہ ثم اعتق باقیہ عنھا جاز]٢٠٤٦[(٢٥) وان اعتق نصف عبدہ عن کفارتہ ثم جامع التی ظاھر منھا ثم اعتق باقیہ لم یُجز عند ابی 

مشقوق علیہ (الف) (بخاری شریف ، باب اذا اعتق نصیبا فی عبد ولیس لہ مال استسعی ا لعبد (٣٤٣ نمبر ٢٥٢٧ مسلم شریف ، باب ذکر سعایة العبد ص ٤٩١ نمبر ١٥٠٣) اس حدیث میں ہے کہ مالدار ہو تو پورا غلام آزاد ہوگا۔اور دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ شریک کا حصہ جو آزاد ہوا اس میں نقص آکر آزاد ہوا یا مکمل آزاد ہوا تو امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ دوسرے کے حصے میں پہلے آزادگی کا نقص آیا پھر اس کا ضامن ہوا پھر آزاد ہوا اس لئے نقص والا غلام آزاد ہوا مکمل غلام آزاد نہیں ہوا۔اس لئے یہ غلام کفارے کے لئے کافی نہیں ہے۔
اور صاحبین فرماتے ہیں کہ آزاد کرنے والے نے شریک کی ذمہ داری لے لی تو شریک کے حصے میںکمی نہیں آئی۔بلکہ مکمل غلام آزاد ہوا۔اس لئے کفارہ کے لئے کافی ہے۔اور اگر آزاد کرنے والا تنگدست ہوتو آدھا غلام ہی کفارے والے کی جانب سے آزاد ہوا باقی آدھے کے بارے میں غلام خود سعی کرکے رقم ادا کرے گا اور آزاد ہوگا اس لئے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔
]٢٠٤٥[(٢٤)اور اگر اپنے ہی غلام کے آدھے حصے کو کفارے کی طرف سے آزاد کیا پھر باقی کو اس کی جانب سے آزاد کیا تو جائز ہے۔  
تشریح  کفارے والے نے اپنے غلام کے آدھے حصے کو آزاد کیا پھر باقی آدھے حصے کو بعد میں آزاد کیا تو کفارہ کی طرف سے کافی ہوگا۔  
وجہ  آدھے غلام کو آزاد کرنے سے جو نقص ہوا وہ اپنی ملکیت میں ہوا اس لئے مکمل غلام آزاد کرنا سمجھا جائے گا اور ایسا ہوا کہ ایک کفارہ دو جملوںمیںادا کیا اس لئے کافی ہوگا ۔
 اصول  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ اپنا آدھا غلام آزاد کرے اور باقی کو آزاد کرے تو اس نقص کا اعتبار نہیں ہے۔کیونکہ مالک ہونے کی وجہ سے گویا کہ پورا غلام ایک مرتبہ ہی آزاد ہوا۔
]٢٠٤٦[(٢٥)اور اگر اپنے غلام کا آدھا اپنے کفارے کی طرف سے آزاد کیا پھر وطی کی اس عورت سے جس سے ظہار کیا تھا پھر آزاد کیا باقی غلام کو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک کافی نہیں ہوگا۔  
وجہ  آیت کے اعتبار سے وطی سے پہلے پورا غلام کفارہ میں ادا کرنا چاہئے۔ اس نے آدھا غلام ہی ادا کیا اور آدھا بعد میںادا کیا۔اور حنفیہ کے نزدیک غلام آزاد کرنے میں تجزی ہو سکتی ہے اس لئے آدھا ہی آزاد ہوا اس لئے کفارے میں کافی نہیں ہے۔  
وجہ  حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غلام آزاد کرنے میں تجزی ہوسکتی ہے۔حدیث میں ہے۔عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ۖ من اعتق شرکا لہ فی عبدفکان لہ مال یبلغ ثمن العبد قوم علیہ قیمة العدل فاعطی شرکاء ہ حصصھم وعتق علیہ العبد 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا کوئی اپنا حصہ آزاد کرے یا مملوک کا ایک ٹکڑا آزاد کرے تو اس کے مال میں سے اس کو چھٹکارا دلانا ہے اگر اس کے پاس مال ہو۔اور مالک کے پاس مال نہ ہو تو غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور غلام کما اکر ادا کرے گااس طرح کہ اس پر مشقت نہ ہو۔

Flag Counter