Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

164 - 448
]٢٠٤٢[(٢١) فان اعتق مکاتبا لم یؤد شیئا جاز]٢٠٤٣[(٢٢) فان اشتری اباہ اوابنہ وینوی بالشراء الکفارة جاز عنھا]٢٠٤٤[(٢٣) وان اعتق نصف عبد مشترک عن الکفارة وضمن قیمة باقیہ فاعتقہ لم یجز عند ابی حنیفة رحمہ اللہ وقال ابویوسف و 

]٢٠٤٢[(٢١)اور اگر آزاد کیا ایسے مکاتب کو جس نے کچھ ادا نہیں کیا ہو تو جائز ہے۔  
وجہ  ابھی مال کتابت میں سے کچھ ادا نہ کیا ہو تو اس میں آزادگی کا شائبہ نہیں آیا ہے اس لئے وہ مکمل غلام ہے۔اس لئے اس کو کفارے میں آزاد کرنا جائز ہے۔صرف کتابت کی بات کرنے سے کیا ہوتا ہے (٢) اوپر کی حدیث بھی اس کی تائید میں ہے۔
]٢٠٤٣[(٢٢) اگر اپنی باپ ،بیٹے یا ذی رحم محرم کو خریدنے سے نیت کی کفارے کی تو کفارے سے کافی ہوگا۔  
تشریح  باپ ، بیٹے یا ذی رحم محرم کو خریدنے سے پہلے کفارے کی نیت تھی تو خریدتے ہی آزاد ہو جائیںگے لیکن کفارہ بھی ادا ہو جائے گا۔  
وجہ  یہاں آزاد ہونے کے دو اسباب ہیں۔ایک ذی رحم محرم ہونے کی وجہ سے آزاد ہونا اور دوسرا کفارے کی وجہ سے آزاد ہونا۔چونکہ خریدنے والی کی نیت کفارہ کی جانب سے آزاد کرنا ہے اس لئے اس کی رعایت ہوگی اور کفارہ ادا ہو جائے گا (٢) حدیث میں اس کا اشارہ ہے۔عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ لا یجزی ولد والدا الا ان یجد مملوکا فیشتریہ فیعتقہ (الف) (مسلم شریف ، باب فضل عتق الوالد ص ٤٩٥ نمبر ١٥١٠ ابو داؤد شریف ، باب فی بر الوالدین ج ثانی ص ٣٥٢ نمبر ٥١٣٧) اس حدیث میں اگرچہ والد کو آزاد کرنے کی فضیلت ہے لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کفارے کی جانب سے ادا کرے تب بھی کفارہ ادا ہو جائے گا۔اور ذی رحم محرم کے مالک ہوتے ہی آزاد ہو جائے گا اس کی حدیث یہ ہے۔عن سمرة بن جندب فیما یحسب حماد قال قال رسول اللہ من ملک ذا رحم محرم فھو حر (ب) (ابو داؤد شریف ، باب فیمن ملک ذارحم محرم ص ١٩٤ نمبر ٣٩٤٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذی رحم محرم کامالک ہوا تو وہ اس پر آزاد ہو جائے گا۔
]٢٠٤٤[(٢٣)اگر مشترک غلام کے آدھے کو آزاد کیا کفارے کی طرف سے اور ضامن ہو گیا باقی کی قیمت کا پھر اس کو آزاد کیا تو کافی نہیں ہے امام ابو حنیفہ کے نزدیک۔اورفرمایا صاحبین نے کہ کہا کافی ہوگا اگر آزاد کرنے والا مالدار ہے۔اور اگر تنگدست ہے تو کافی نہیں ہوگا ۔ 
تشریح  یہ مسئلہ دو قاعدوں پر ہے۔ایک قاعدہ یہ ہے کہ غلام دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہو اور ایک آدمی اپنا حصہ آزاد کرے تو اگر وہ مالدار ہے تو پورا غلام ہی آزاد ہو جائے گا اور شریک کے حصے کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔اور اگر آزاد کرنے والا غریب ہے توجتنا اس نے آزاد کیا اتنا آزاد ہوگا اور باقی حصے کا غلام کما کر آقاکو ادا کرے گا پھر آزاد ہوگا۔ اس قاعدے کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن ابی ھریرة ان النبی ۖ قال من اعتق نصیبا او شقیصا فی مملوک فخلا صہ علیہ فی مالہ ان کان لہ مال والا قوم علیہ فاستسعی بہ غیر 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا والد کا بدلہ اس سے کم میں نہیں ہوگا کہ اس کو مملوک پائے پھر اس کو خرید کر آزاد کردے(ب) آپۖ نے فرمایا کوئی ذی رحم محرم کا مالک بنے تو وہ آزاد ہو جائے گا۔

Flag Counter