Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

13 - 448
قذف]١٧٣٠[(٥) فان تزوج مسلم ذمیة بشھادة ذمیَّین جاز عند ابی حنیفة رحمہ اللہ وابی یوسف رحمہ اللہ تعالی وقال محمد رحمہ اللہ لایجوز الا ان یشھد شاھدین 

گواہوں کی موجودگی میں بھی نکاح ہو جائے گا ۔  
وجہ  آیت میں ہے کہ محدود فی القذف والوں کی گواہی قبول نہ کرو ۔آیت یہ ہے  والذین یرمون المحصنت ثم لم یأتو باربعة شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدة ولا تقبلوا لھم شھادة ابدا واولئک ھم الفاسقون (الف) (آیت ٤ سورة النور ٢٤) لیکن ہم کہتے ہیں کہ محدود فی القذف والوں کی گواہی قاضی قبول نہ کرے لیکن وہ گواہ بن سکتا ہے۔اور تقریبا ہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ نکاح کے گواہ کو قاضی کے سامنے گواہی دینے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اس کی گواہی قبول کرنے کی ضرورت پڑے (٢) نکاح کے گواہ بننے میں تھوڑی آسانی ہے کیونکہ وہ روز مرہ کا کام ہے ۔
 فائدہ  امام شافعی کے نزدیک نکاح میں بھی فاسق اور محدود فی القذف کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی ہے۔  
وجہ  ان کی دلیل اوپر کی حدیث ہے اورآیت ہے جن میں ان لوگوں کی گواہی قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔
]١٧٣٠[(٥)پس اگر مسلمان نے ذمیہ عورت سے شادی کی دو ذمیوں کی گواہی سے تو امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک جائز ہے۔اور امام محمد نے فرمایا کہ نہیں جائز ہے مگر دو مسلمانوں کی گواہی سے۔  
تشریح  اس عبارت میں ذمیہ سے مراد نصرانیہ اور یہودیہ عورت ہے۔ تو مطلب یہ ہوا کہ مسلمان نے یہودیہ یا نصرانیہ سے شادی کی دو یہودی یا دو نصرانی کی گواہی سے تو شیخین کے نزدیک نکاح ہو جائے گا۔  
وجہ  اس کی وجہ یہ ہے کہ ذمی مسلمان کے نقصان کے لئے گواہی دینا چاہے تو قابل قبول نہیں ہے۔آیت میں ہے  ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا (ب ) (آیت ١٤١ سورة النساء ٤) اس آیت میں ہے کہ کافر کو مسلمانوں پر کوئی راستہ نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ نقصان دینے کے لئے گواہی دے تو قابل قبول نہیں۔لیکن مسلمان کے فائدے کے لئے گواہی دے تو مقبول ہے۔ اور اس مسئلے میں یہودی یانصرانیہ عورت کا جسم مسلمان کے قبضے میں آرہا ہے جو مسلمان کے فائدے کی چیز ہے اس لئے یہ گواہی مقبول ہوگی (٢)گویا کہ ذمی نے ذمیہ کے لئے گواہی دی۔اور ذمی ذمی کے خلاف گواہی دے تو یہ مقبول ہے۔اس لئے ذمیہ کے نکاح میں دو ذمی گواہ بن جائیں تو نکاح صحیح ہو جائے گا (٣) حدیث میں ہے  عن جابربن عبد اللہ ان رسول اللہ ۖ اجاز شھادة اہل الکتاب بعضھم علی بعض (ج) (ابن ماجہ شریف ، باب شھادة اہل الکتاب بعضھم علی بعض ص ٣٤٠ نمبر ٢٣٧٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب بعض بعض کے خلاف گواہی دے سکتا ہے۔اور اس صورت میں ذمیہ کے خلاف گواہی دینا ہوا اس لئے گواہ بننا جائز ہوگا۔
فائدہ  امام محمد فرماتے ہیں کہ ذمیہ کی شادی بھی دو مسلمان گواہوں کے علاوہ سے نہیں ہوگی۔  

حاشیہ  :  (الف) وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں پھر چار گواہ نہیں لاتے تو اس کو اسی کوڑے حد لگاؤ۔اور کبھی بھی اس کی گواہی قبول نہ کرو اور وہ فاسق ہیں(ب) اللہ نے کافروں کو مؤمن پر کوئی راستہ نہیں دیا(ج) آپۖ نے اجازت دی اہل کتاب کی گواہی کی بعض کی بعض کے خلاف۔

Flag Counter