Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

12 - 448
مسلمین او رجل وامرأتین عدولا کانوا او غیر عدول]١٧٢٩[(٤) او محدودین فی 

عمربن الخطاب اجاز شھادة رجل وامرأتین فی النکاح والفرقة (الف) (موطا امام محمد ، باب النکاح السر ص ٢٤٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی نکاح اور طلاق میں کافی ہے  (٢)  آیت میں بھی اس کی صراحت ہے  ۔  واستشھدوا شھیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشھداء (ب) (آیت ٢٨٢ سورة البقرة ٢) اس آیت سے پتہ چلا کہ دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی چل جائے گی۔اور رجل کے لفظ سے یہ بھی پتہ چلا کہ بچوں کی گواہی قبول نہیں ۔
یوں تو عادل ہی کی گواہی قبول کرنی چاہئے ۔کیونکہ آیت میں ہے۔ واشھدوا ذوی عدل منکم واقیموا الشھادة للہ ذلکم یوعظ بہ (ج)(آیت ٢ سورة الطلاق٦٥) اور حدیث میں ہے ۔عن عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان رسول اللہ رد شھادة الخائن والخائنة وذی الغمر علی اخیہ ورد شھادة القانع لاھل البیت واجازھا لغیرھم (د) (ابو داؤد شریف ، باب من ترد شھادتہ ص ١٥١ نمبر ٣٦٠٠) اس سے معلوم ہوا کہ عادل کی گواہی قبول کرنی چاہئے ۔اور خائن اور فاسق کی گواہی نہیں قبول کرنی چاہئے۔لیکن نکاح کا معاملہ تھوڑا آسان ہے کہ اکثر و بیشتر گواہ بنتا ہے لیکن قاضی کے سامنے شادی کی گواہی دینے کی ضروت نہیں پڑتی ۔اس لئے فاسق بھی گواہ بن جائے تو جائز ہے (٢) حجاج بن یوسف فاسق تھا پھر بھی حاکم بنا اور دوسروں کو قاضی بنایا تو جائز ہوگیا اس لئے فاسق کی گواہی جائز ہو جائے گی۔فاسق کا مطلب یہ ہے کہ نماز چھوڑنے یا زکوة ادا نہ کرنے کی وجہ سے فاسق ہو تو گواہی مقبول ہے۔لیکن اگر جھوٹ بولنے کی وجہ سے فاسق ہوا ہو تو اس کی گواہی قابل قبول نہیں۔کیونکہ جھوٹ کی وجہ سے اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔کیونکہ آیت میں جھوٹ بولنے سے منع فرمایا گیا ہے۔فاجتنبوا الرجس من الاثان واجتنبوا قول الزور (ہ) (آیت ٣٠ سورة الحج ٢٢)اس آیت میں جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قرار دیا ہے (٢) حدیث میں ہے۔عن انس قال سئل النبی ۖ عن الکبائر قال الاشراک باللہ وعقوق الوالدین وقتل النفس وشھادة الزور (و) (بخاری شریف ، باب ما قبل فی شھادة الزور ص ٣٦٣ نمبر ٢٦٥٣) اس حدیث میں بھی جھوٹی گواہی سے منع فرمایا ہے۔
]١٧٢٩[(٤)یا زنا کی تہمت لگانے میں سزا پائے ہوئے ہوں۔  
تشریح  کسی نے کسی عورت پر زنا کی تہمت لگائی اور اس کو ثابت نہ کر سکا جس کی وجہ سے اس پر حد قذف لگ گئی ہو ایسے محدود فی القذف 

حاشیہ  :  (الف) حضرت عمر نے جائز قرار دیا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی نکاح میں اور فرقت میں (ب) مردوں میں سے دو کو گواہ بناؤ ۔پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں گواہ میں سے جن سے تم راضی ہو(ج) گواہ بناؤ تم میں سے دو عادل آدمی کو اور اللہ کے لئے قائم کرو گواہی کو ۔اس کی تم کو نصیحت کی جاتی ہے (د) آپ نے رد کیا خائن مرد اور خائنہ عورت اور دشمنی رکھنے والے بھائی کی گواہی کو اور رد کیا گھر کے خادم کی گواہی گھر والے کے لئے اور اس کے علاوہ کی گواہی جائز قرار دی (ہ) بتوں سے پرہیز کرو،اور جھوٹی گواہی دینے سے پرہیز کرو(و) حضورۖ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا ،پس فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی اور آدمی کو قتل کرنااور جھوٹی گواہی دینا

Flag Counter