Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

11 - 448
]١٧٢٨[(٣) ولا ینعقد نکاح المسلمین الا بحضور شاھدین حرین بالغین عاقلین۔ 

دونوں جانب سے فعل ماضی کا صیغہ استعمال کیا اور نکاح کرا دیا تو نکاح ہو جائے گا۔  
وجہ  دونوں جانب سے یہاں بھی فعل ماضی کا صیغہ ہی استعمال ہوا ہے جس سے بات پکی ہو گئی۔اور امر کا جو صیغہ استعمال ہوا ہے وہ سامنے والے کو نکاح کا وکیل بنانے کے لئے ہوا ہے۔  
اصول  بات پکی ہونے کے لئے یہاں بھی ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے (٢) حدیث میں اس کا ثبوت ہے کہ  زوجنی  امر کا صیغہ استعمال کرکے یعنی مستقبل کا صیغہ استعمال کرکے نکاح کا وکیل بنانا جائز ہے۔ایک عورت نے اپنے آپۖ کو حضورۖ پر پیش کیا ۔آپۖ نے کوئی جواب نہیں دیا تو ایک صحابی نے فرمایا یا رسول اللہ ! زوجنیھا  اور اس حدیث میں امر کا صیغہ استعمال کرکے آپ ۖکو نکاح کا وکیل بنایا اور آپۖ نے مرد اور عورت دونوں کی جانب سے وکیل بن کر فعل ماضی کا صیغہ استعمال کیا اور دونوں کا نکاح ایک ہی جملہ میں کرا دیا۔آپۖ نے اس طرح فرمایا  فقال النبی املکنا کھا بما معک من القرآن (الف)( بخاری شریف، باب عرض المرأة نفسھا علی الرجل الصالح ص ٧٦٧ نمبر ٥١٢١)  اس حدیث میں ایجاب کرنے والے نے امر کا صیغہ   زوجنیھا  استعمال کیا اور آپۖ نے  املکناکھا  فعل ماضی کا صیغہ استعمال کرکے نکاح کرا دیا۔اور ایک روایت میں ہے  زوجناکھا مما معک من القرآن  (ب)(بخاری شریف ، نمبر ٥١٣٥)
نوٹ  بیع اور شراء میں دونوں جانب سے ایک آدمی وکیل اور اصیل یا دونوں جانب سے وکیل نہیں بن سکتا۔جس کی تفصیل کتاب البیوع میں گزر چکی ہے۔لیکن نکاح میں ایک ہی آدمی دونوں جانب سے وکیل یا ایک جانب سے وکیل اور اپنی جانب سے اصیل بن سکتا ہے۔کیونکہ بعد میں ذمہ داری وکیل پر نہیں رہتی بلکہ نکاح کرنے والے پر چلی جاتی ہے۔
]١٧٢٨[(٣)نہیں منعقد ہوگا نکاح مسلمانوں کا مگر دو گواہوں کے سامنے جو دونوں آزاد ہوں ،بالغ ہوں ،عاقل ہوں اور مسلمان ہوں ۔یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں،عادل ہوں یا غیر عادل ہوں۔  
تشریح  نکاح صحیح ہونے کے لئے دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔چاہے دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تو نکاح صحیح ہو جائے گا۔  
وجہ  حدیث میں ہے کہ بغیر گواہ کے نکاح کیا تو وہ زنا ہوگا ،نکاح ہوگا ہی نہیں۔حدیث میں ہے (١) عن ابن عباس ان النبی ۖ قال البغایا اللاتی ینکحن انفسھن بغیر بینة (ج) (ترمذی شریف ، باب ماجاء لا نکاح الا ببینة ص ٢٠٩ نمبر ١١٠٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں ہوگا (٢) عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ۖ لا نکاح الا بولی وشاھدی عدل (د) (دار قطنی ، کتاب النکاح ج ثالث ص ١٥٨ نمبر ٣٤٩٢ سنن للبیہقی ، باب لا نکاح الا بشاھدیب عدلین ج سابع، ص ٢٠٢،نمبر ١٣٧١٨) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے دو گواہ ہوں ورنہ نکاح نہیں ہوگا۔اور ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تب بھی کافی ہیں ان کی دلیل یہ اثر ہے۔ ان 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا میں نے تم کو اس عورت کا مالک بنایا اس کے بدلے میں جو تمہارے پاس قرآن میں سے ہے (ب) میں نے تمہارا اس عورت سے نکاح کرا دیا اس کی وجہ سے جو تمہارے پاس قرآن ہے(ج) آپۖ نے فرمایازانی وہ ہے جو اپنا نکاح بغیر گواہ کے کرے (د) آپۖ نے فرمایا نہیں نکاح ہے مگر ولی کے ذریعہ اور دو عادل گواہوں کے ذریعہ ۔

Flag Counter