Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

10 - 448
]١٧٢٧[(٢) مثل ان یقول زوجنی فیقول زوجتک۔

کیا۔اس لئے کسی بھی عقد میں ایجاب اور قبول ضروری ہیں(٣) خود نکاح میں ایجاب اور قبول کا اشارہ موجود ہے۔ان عمربن الخطاب حین تأیمت حفصة بنت عمر ... ثم خطبھا رسول اللہ فانکحتھا ایاہ (الف)(بخاری شریف ، باب عرض الانسان ابنتہ او اختہ علی اہل الخیر ص ٧٦٧ نمبر ٥١٢٢) اس حدیث میں حضورۖ نے حضرت حفصہ کو پیغام نکاح دے کر ایجاب کیا اور حضرت عمر نے فانکحتھا کہہ کر قبول فرمایا۔جس سے معلوم ہوا کہ نکاح ایجاب اور قبول سے منعقد ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ دونوں لفظ فعل ماضی کے ہوں تب نکاح ہوگا۔  
وجہ  اصل بات یہ ہے کہ عقد میں بات پکی ہونی چاہئے ۔اور وہ فعل ماضی میں ہوگی کیونکہ عربی زبان میں یا فعل ماضی ہے یا فعل مضارع۔اور فعل مضارع کا ترجمہ ہے حال یا استقبال۔پس اگر استقبال کے معنی لیں تو نکاح کرنے کا صرف وعدہ ہوگا با ضابطہ نکاح کرنا نہیں ہوگا۔ اس لئے بات پکی کرنے کے لئے فعل ماضی کا صیغہ استعمال کرنا چاہئے۔حدیث میں ایجاب اور قبول کے لئے فعل ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔قال لی العداء بن خالد بن ھوذة الا اقرئک کتابا کتبہ لی رسول اللہ ۖ قال قلت بلی فاخرج لی کتابا،ھذا ما اشتری العداء بن خالد بن ھوذة من محمد رسول اللہ اشتری منہ عبدا او امة لا داء ولا غائلة ولا خبثة (ب) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی کتابة الشروط ص ٢٣٠ نمبر ١٢١٦) اس حدیث میں اشتری فعل ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے تاکہ بات پکی ہو۔پھر خرید و فروخت کو لکھ لیا گیا ہے تاکہ دونوں اور پکے ہو جائیں (٢) ایک اور حدیث میں فعل ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔عن انس بن مالک ان رسول اللہ ۖ باع حلسا وقدحا وقال من یشتری ھذا الحلس والقدح؟ فقال رجل اخذتھما بدرھم (ج) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی بیع من یزید ص ٢٣٠ نمبر ١٢١٨) اس حدیث میں خریدنے والے نے اخذتھمابدرھم کہا ہے اور فعل ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے۔اس لئے نکاح میں فعل ماضی استعمال کرنا ضروری ہے۔  
اصول  معاملات میں بات پکی ہونا ضروری ہے (٢) نکاح میں ایجاب اور قبول فعل ماضی کے صیغے سے ادا کرے۔
ایک دوسری شکل ہے کہ ایجاب یا قبول میں سے ایک کو فعل ماضی سے تعبیر کیا ہو اور دوسرے کو فعل مستقبل سے یعنی امر کے صیغہ سے تعبیر کیا تب بھی نکاح ہو جائے گا،اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
]١٧٢٧[(٢)مثلا یہ کہے کہ تم میرا نکاح کرادو،پس سامنے والے نے کہا کہ میں نے تمہارا نکاح کر دیا۔  
تشریح  ایجاب کرنے والے نے امر کے صیغے سے جس کو مستقبل کا صیغہ کہتے ہیں ،سامنے والے کو نکاح کا وکیل بنایا اور سامنے والے نے 

حاشیہ  :  (الف) جس وقت حفصہ بنت عمر بیوہ ہوئیں ...پھر ان کو حضورۖ نے پیغام نکاح دیا تو میںنے ان سے بیٹی کا نکاح کر دیا۔(ب) عداء بن خالد نے مجھے کہا کیا میں وہ خط نہ پڑھاؤں جو حضورۖ نے میرے لئے لکھا تھا۔میں نے کہا ہاں ! پس میرے لئے ایک خط نکالا ۔یہ وہ ہے جو خریدا عداء بن خالد نے محمد رسول اللہ ۖ سے۔خریدا ان سے غلام یا باندی نہ اس میں بیماری ہو نہ دھوکہ ہو نہ خباثت ہو (ج) آپۖ نے بیچا جل اور پیالہ اور فرمایا کون اس جل اور پیالے کو خریدے گا ؟ پس ایک آدمی نے کہا دونوں کو ایک درہم میں خرید لیا۔

Flag Counter