١ لأن فیہ نظرا للجانبین حتی یبقی المملوک حیا ویبقی فیہ ملک المالک۔ (٢٢١٠) وان لم یکن لہما کسب بأن کان عبدا زمنا أو جاریة لا یؤاجر مثلہا. أجبر المولی علی بیعہا) ١ لأنہما من أہل الاستحقاق وف البیع ابفاء حقہما وایقاء حق المولی بالخلف
ترجمہ: ١ اس لئے کہ اس میں دونوں جانب رعایت ہے ، یہاں تک کہ مملوک زندہ باقی رہے گا ، اور مملوک میں مالک کی ملکیت باقی رہے گی ۔
تشریح : آقا غلام باندی کا نفقہ دینے سے انکار کر گیا تو دوسری صورت یہ ہے کہ اگر وہ کام کر کے کھا سکتے ہوں تو کمائیں اور کھائیں ۔ اس میں مملوک کی رعایت ہے کہ انکی زندگی بچ جائے گی ، اور چونکہ وہ زندہ رہیں گے تو آقا کی ہی ملکیت باقی رہے گی تو آقا کی بھی رعایت ہو گئی ۔
وجہ : (١) حدیث میں ہے کہ مملوک کما کر کھاتے تھے ۔عن انس بن مالک قال حجم ابو طیبة النبی فامر لہ بصاع او صاعین من طعام وکلم موالیہ فخفف عن غلتہ او ضریبتہ۔ (بخاری شریف ، باب ضریبة العبد وتعاہد ضرائب الامائ، ص ٣٠٤ نمبر ٢٢٧٧) اس حدیث میں ابو طیبہ غلام پر ٹیکس لازم کیا ہے جو زیادہ ہے ۔اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسی اجرت سے اپنا نفقہ وصول کرتا ہو۔
ترجمہ:(٢٢١٠)اور اگر وہ کما نہ سکتے ہوں] اس طرح کہ غلام اپاہج یا باندی ایسی ہو کہ اس طرح کی باندی اجرت پر نہیں رکھی جا سکتی ہو [ تو آقا کو انکے بیچنے پر مجبور کیا جائے گا ۔
ترجمہ: ١ کیونکہ یہ دونوں نفقہ کے مستحق ہیں اور بیچنے میں ان دونوں کا حق ادا ہوتا ہے ، آقا کا حق باقی رہا اس کا خلیفہ یعنی قیمت کے ذریعہ ۔
تشریح: آقا غلام باندی کا نفقہ بھی ادا نہیں کرتا ہے اور غلام باندی کوئی کام بھی نہیں کر سکتے ہیں، مثلا غلام باندی اپاہج ہیں ، یا باندی ایسی ہے کہ اس کو اجرت پر نہیں رکھی جا سکتی ، اور آقا نفقہ بھی نہیں دیتا ہے توآقا کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ بیچ دے تاکہ دوسرا آقا اس کو نفقہ دے جس سے اس کی جان بچے ، اور آقا کا اس میں نقصان نہیں ہے کیونکہ اس کو غلام باندی کی قیمت مل جائے گا ، تو اس صورت میں بھی مملوک اور آقا دونوں کی رعایت ہے۔
وجہ :(١) اس حدیث میں ہے کہ جی نہ بھرے تو بیچ دو ، اور اللہ کے مخلوق کو عذاب نہ دو۔ عن المعرور بن سوید قال رأیت ابا ذر بالربذة.....قال انھم اخوانکم فضلکم اللہ علیھم فمن لم یلائمکم فبیعوہ و لا یعذبوا خلق اللہ ۔( ابو داود شریف ، باب فی حق المملوک ، ص ٧٢٤، نمبر ٥١٥٧) اس حدیث میں ہے کہ جی نہ بھرے تو بیچ دو۔(٢)حدیث میں ہے کہ