١ لانہ معاملة او امر دینی لتعلق الحل بہ و قول الواحد فیہما مقبول ٢ وہو غیر مستنکر اذا کانت المدة تحتملہ ٣ واختلفوا فی ادنی ہذہ المدة و سنبینہا فی باب العدة۔
سے ٣٩ دن ہوں گے ، پس اگر وہ ٣٩ دن کے بعد واپس آئی اورکہا کہ میں دوسرے شوہر کی عدت بھی گزار کر آئی ہوں اور حالات اور قرائن ایسے ہوں کہ وہ سچ بول رہی ہو تو اس کی بات مان لی جا سکتی ہے اور دوبارہ زوج اول نکاح کر سکتا ہے ۔
ترجمہ ١ : اس لئے کہ یہ معاملہ ہے یا دینی امر ہے اس لئے کہ اس کے ساتھ حلت متعلق ہے اور دو نوں صورتوں میں آدمی کا قول مقبول ہے ۔
تشریح: ایک عورت کی گواہی قبول کرنے کی یہ دلیل عقلی ہے ۔نکاح میں بضع پر قبضہ ہو تا ہے اس اعتبار سے یہ معاملہ ہے ، اور معاملہ میں دوسرے پر الزام نہ ہو تو ایک آدمی کی گواہی قبول ہے جیسے وکیل بنانا ہو یا کسی کی وکالت ختم کرنی ہو تو ایک آدمی کی خبر کافی ہے اس لئے یہاںعدت ختم ہو نے میں الزام نہیں ہے اس لئے ایک آدمی کی گواہی مان لی جائے گی ۔ دوسرے اعتبار سے یہ امر دینی ہے کیونکہ عدت کے گزرنے سے بضع کے حلال اور حرام کا معاملہ در پیش ہو تا ہے ، اور امر دینی میں بھی ایک آدمی کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے اس لئے ایک عورت کی گواہی قبول کی جائے گی ۔
وجہ : (١) اس اثر میں ہے کہ ایسا معاملہ جو خود عورت ہی کو معلوم ہو سکتا ہو اس میں عورت کی گواہی قبول کی جائے گی ۔ عن ابی قال ان من الامانة ان المرأة اوتمنت علی فرجھا ۔( مصنف ابن ابی شیبة ، باب من قال اوتمنت المرأة علی فرجھا ،ج رابع، ص ٢٠٥، نمبر ١٩٢٨٤سنن للبیہقی ، باب تصدیق المرأة فیما یمکن فیہ انقضاء عدتھا ،ج سابع ،ص ٦٨٧، نمبر١٥٤٠٤) اس اثر میں ہے کہ عورت کی ذات کے بارے میں اس پر اعتماد کرنا چاہئے (٢) اس آیت میں بھی اس کا اشارہ ہے ۔ و لا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ۔( آیت ٢٢٨، سورة البقرة ٢) اس آیت میں اشارہ ہے کہ عورت کو اپنے رحم کے بارے میں چھپانا نہیں چاہئے ، اور یہ بھی اشارہ ہے کہ عورت پر اعتماد کرنا چاہئے ۔
ترجمہ: ٢ اور عورت کا یہ خبر قابل انکار بھی نہیں ہے جبکہ مدت اس کا احتمال رکھتی ہو ۔
تشریح: اتنی مدت کے بعد آئی ہو جس میں عدت گزر سکتی ہو تو عورت کی بات کے انکار کرنے کا بھی کوئی علامت نہیں ہے اس لئے اس کی بات مانی جا سکتی ہے ، اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ عدت گزرنے کی مدت سے پہلے آجائے تو عورت کی بات نہیں مانی جائے گی ، کیونکہ علامت بتا رہی ہے کہ یہ عورت جھوٹی ہے ۔
ترجمہ: ٣ اس مدت کے ادنی مدت کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے ، اس کو ہم عدت کے باب میں ان شاء اللہ بیان کریں گے ۔