٢ ولا بد من قیام العدة لان الرجعة الملک الا تری انہ سمی امساکا وہو الابقاء و انما یتحقق الاستدامة فی العدة لانہ لا ملک بعد انقضائہا
روک لینا اور دوسرا چھوڑ دینا۔اس لئے عدت ختم ہو جائے تو اب رجعت نہیں کر سکتا (٤) اثر میں ہے۔عن ابن عباس وعن مرة عن عبد اللہ وعن اناس من اصحاب رسول اللہ ۖ فذکر التفسیر الی قولہ الطلاق مرتان قال ھو المیقات الذی یکون علیھا فیہ الرجعة فاذا طلق واحدة او ثنتین فاما ان یمسک ویراجع بمعروف واما یسکت عنھا حتی تنقضی عدتھا فتکون احق بنفسھا۔(سنن للبیہقی ،کتاب الرجعة، ج سابع ،ص ٦٠١، نمبر ١٥١٥٠مصنف ابن ابی شیبة،١٥١ ماقالوا فی قولہ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان، ج رابع، ص ١٩٦، نمبر ١٩٢١١)اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ عدت کے اندر اندر رجعت کر سکتا ہے اس کے بعد نہیں۔
اور عورت راضی نہ ہو تب بھی رجعت کر سکتا ہے اس کی دلیل ۔
وجہ (١) وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا ۔ (آیت ٢٢٨ ،سورة البقرة ٢) اس آیت میں ہے کہ شوہر کو رجعت کا زیادہ حق ہے، جس سے اشارہ نکلتا ہے کہ عورت کی رضامندی کی ضرورت نہیں (٢)اوپر کی آیت میں ہے۔فامسکوھن بمعروف، جس میں مرد کو کہا گیا ہے کہ تم بیوی کو روک سکتے ہو۔جس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی روکنے میں اس کو پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے (٣) اثر میں ہے۔عن ابراہیم قال اذا ادعی الرجعة قبل انقضاء العدة فعلیہ البینة ۔ (مصنف ابن ابی شیبة، ٢٤٩ ماقالوا فی الرجل یدعی الرجعة قبل انقضاء العدة ،ج رابع ،ص ١٩٥، نمبر ١٩٢٠٥) اس اثر میں ہے کہ مرد عدت ختم ہونے سے پہلے رجعت کرنے کا دعوی کرے تو اس پر بینہ لازم ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ رجعت کرنے کے لئے عورت کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔
(رجت کرنے کے لئے یہ شرطیں ہیں )
]١[ طلاق رجعی واقع ہوئی ، بائنہ یاغلظہ واقع نہ ہوئی ہو ۔
]٢[ عدت باقی ہو ، ختم نہ ہو ئی ہو ،عورت مدخول بھا ۔
]٣[ طلاق کے عوض میں مال نہ لیا ہو ۔
ترجمہ: ٢ اور عدت کا قائم رہنا ضروری ہے ، اس لئے کہ رجعت کا ترجمہ ہے ملک کو برقرار رکھنا ، کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ قرآن نے امساک نام رکھا ہے اور وہ باقی رکھنا ہے اور برابر باقی رکھنا عدت ہی میں ہو سکتا ہے ، کیونکہ عدت ختم ہو جانے کے بعد ملک نکاح نہیں رہتی ۔
تشریح: رجعت کر نے کے لئے عدت کا قائم رہنا ضروری ہے ، ورنہ عدت ختم ہو نے کے بعد رجعت نہیں ہو سکے گی ، اس کی دو