بخيلا ولا كذوبا ولا جبانا» رواه البخاري
جبىر بن مطعمؓ سے رواىت ہے کہ وہ رسول اﷲ کے ساتھ چل رہے تھے جبکہ اپ مقام حنىن سے واپس ہو رہے تھے آپ کو بدوى لوگ لپٹ گئے اور آپ سے مانگ رہے تھے ىہاں تک کہ آپ کو اىک ببول کے درخت سے اَڑا دىا اور آپ کا چادرہ بھى چھىن لىا۔ آپ کھڑے ہوگئے اور فرماىا مىرا چادرہ تو دے دو اگر مىرے پاس ان درختوں کى گنتى کے برابر بھى اونٹ ہوتے تو مىں سب تم مىں تقسىم کر دىتا پھر تم مجھ کو نہ بخىل پاؤ گے نہ جھوٹا نہ تھوڑے دل کا (بخارى)
عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الغداة جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء فما يأتون بإناء إلا غمس يده فيها فربما جاؤوه بالغداة الباردة فيغمس يده فيها. رواه مسلم
حضرت انس ؓ سے رواىت ہے کہ رسول اﷲ جب صبح کى نماز پڑھ چکتے مدىنہ(والوں) کے غلام اپنے برتن لاتے جن مىں پانى ہوتا تھا، سو جو برتن بھى پىش کرتے آپ (برکت کے لئے) اس مىں اپنا دستِ مبارک ڈال دىتے۔ بعض اوقات سردى کى صبح ہوتى تب بھى اپنا دست مبارک اس مىں ڈال دىتے (مسلم)
وعنه قال: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحشا ولا لعانا ولا سبابا كان يقول عند المعتبة: «ما له ترب جبينه؟» . رواه البخاري
ان ہى سے رواىت ہے کہ رسول اﷲ سخت مزاج نہ تھے اور نہ کوسنا دىنے والے تھے۔ کوئى بات عتاب کى ہوتى تو ىوں فرماتے فلانے شخص کو کىا ہوگىا، اس کى پىشانى کو خاک لگ جاوے(جس سے کوئى تکلىف ہى نہىں خصوص اگر سجدہ مىں لگ جاوے تب تو ىہ دعا ہے نمازى ہونے کى اور نماز خاصىت ہے بُرى باتوں سے روکنے کى، ىہ اصلاح کى دعا ہوئى) (بخارى)