ہوجاوىں گے اور نہ ىہ مطلب ہے کہ خاص حج کرنے سے بدون سزا معاف ہوجاوىں گے بلکہ قبل اس دعا کے قبول ہونے کے دو احتمال تھے: اىک ىہ کہ حقوق العباد کى سزا مىں جہنم مىں ہمىشہ رہنا پڑے، دوسرا ىہ کہ گو جہنم مىں ہمىشہ رہنا نہ ہو لىکن سزا ضرور ہو۔ اب اس دعا کے قبول ہونے کے بعد دو وعدے ہوگئے: اىک ىہ کہ بعد سزا کبھى نہ کبھى ضرور نجات ہوجاوے گى، دوسرا ىہ کہ بعض دفعہ بدون سزا بھى اس طور پر نجات ہوجاوے گى کہ مظلوم کو نعمتىں دے کر اس سے راضى نامہ دلواىا جاوے گا۔
ف:۔ غور کر کے دىکھوآپ کو اس قانون کى منظورى لىنے مىں کس قدر فکر اور تکلىف ہوئى ہے۔ کىا اب بھى قلب مىں آپ کى محبت کا جوش نہىں اُٹھتا۔
عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن النبي صلى الله عليه وسلم تلا قول الله تعالى في إبراهيم: [رب إنهن أضللن كثيرا من الناس فمن تبعني فإنه مني] وقال عيسى: [إن تعذبهم فإنهم عبادك] فرفع يديه فقال «اللهم أمتي أمتي» . وبكى فقال الله تعالى: «يا جبريل اذهب إلى محمد وربك أعلم فسله ما يبكيه؟» . فأتاه جبريل فسأله فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم بما قال فقال الله لجبريل اذهب إلى محمد فقل: إنا سنرضيك في أمتك ولا نسوؤك ". رواه مسلم
حضرت عبد اﷲبن عمرو بن العاصؓ سے رواىت ہے جس کا حاصل ىہ ہے کہ رسول اﷲ نے وہ آىتىں پڑھىں جن مىں حضرت ابراہىم علىہ السلام (ابراہىم:آىت36) اور حضرت عىسىٰ علىہ السلام (المائدۃ:آىت118) کى دعائىں اپنى اپنى اُمت کے لئے مذکور ہىں اور (دعا کے لئے) اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور عرض کىا اے اﷲ!مىرى امت مىرى امت۔ حق تعالىٰ نے فرماىا اے جبرىل! محمد () کے پاس جاؤ اور ىوں تو تمہارا پروردگار جانتا ہى ہے اور اُن سے پوچھو آپ کے رونے کا سبب کىا ہے ۔ اُنہوں نے آپ سے پوچھا ، رسول اﷲ نے جو کچھ کہا تھا ان کو بتلاىا۔ حق تعالىٰ نے جبرىل علىہ السلام سے فرماىا محمد() کے پاس جاؤ اور کہو ہم آپ کو آپ کى امت کے معاملہ مىں خوش کر دىں گے اور رنج نہ دىں گے۔ رواىت کىا اس کو مسلم نے۔