عليه وسلم أو قال تبسم فقال له أبو بكر وعمر: بأبي أنت وأمي إن هذه لساعة ما كنت تضحك فيها فما الذي أضحكك أضحك الله سنك؟ قال: «إن عدو الله إبليس لما علم أن الله عز وجل قد استجاب دعائي وغفر لأمتي أخذ التراب فجعل يحشوه على رأسه ويدعو بالويل والثبور فأضحكني ما رأيت من جزعه» رواه ابن ماجه وروى البيهقي في كتاب البعث والنشور نحوه
حضرت عباس بن مرداس سے رواىت ہے کہ رسول اﷲ نے اپنى امت کے لئے عرفہ کى شام کو مغفرت کى دعا فرمائى۔ آپ کو جواب دىا گىا کہ مىں نے ان کى مغفرت کر دى بجز حقوق العباد کے (کہ اس مىں ظالم سے مظلوم کا بدلہ ضرور لوں گا اور بدون عذاب مغفرت نہ ہو) آپ نے عرض کىا اے پروردگار! اگر آپ چاہىں تو مظلوم کو (اس کے حق کا عوض) جنت سے دے کر ظالم کى مغفرت فرما سکتے ہىں مگر اس شام کو ىہ دعا قبول نہىں ہوئى۔ پھر جب مزدلفہ مىں آپ کو صبح ہوئى آپ نے پھر وہى دعا کى اور آپ کى درخواست قبول ہوگئى پس آپ ہنسے، اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓکے پوچھنے پر آپ نے فرماىا کہ جب ابلىس کو معلوم ہوا کہ اﷲتعالىٰ نے مىرى دعا قبول کر لى اور مىرى امت کى مغفرت فرما دى خاک لے کر اپنے سر پر ڈالتا تھا اور ہائے وائے کرتا تھا مجھ کو اس کا اضطراب دىکھ کر ہنسى آگئى۔ رواىت کىا اس کو ابن ماجہ نے اور اس کے قرىب قرىب بىہقى نے۔
ف:۔ اس حدىث کا ىہ مطلب نہىں کہ حقوق العباد على الاطلاق بدون سزا معاف