وجعل يحجزهن ويغلبنه فيقتحمن فيها فأنا آخذ بحجزكم عن النار وأنتم يقتحمون فيها» . هذه رواية البخاري
حضرت ابوہرىرہؓ سے رواىت ہے کہ رسول اﷲ نے فرماىا کہ مىرى (اور تمہارى )حالت اس شخص کى سى ہے کہ جىسے کسى نے آگ روشن کى اور اس پر پروانے گرنے لگے اور وہ ان کو ہٹاتا ہے مگر وہ اس کى نہىں مانتے اور آگ مىں دھنسے جاتے ہىں۔اسى طرح مىں تمہارى کمر پکڑ پکڑ کر آگ سے ہٹاتا ہوں (کہ دوزخ مىں لے جانے والى چىزوں سے روکتا ہوں ) اور تم اس مىں گھسے جاتے ہو۔ رواىت کىا اس کو بخارى نے۔
ف:۔ دىکھئے اس حدىث سے رسول اﷲ کو دوزخ سے اپنى امت کو بچانے کا کتنا اہتمام معلوم ہوتا ہے ۔ ىہ محبت نہىں تو کىا ہے، اگر ہم کو اىسى محبت والے سے محبت نہ ہو تو افسوس ہے۔
عن عباس بن مرداس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا لأمته عشية عرفة بالمغفرة فأجيب: «إني قد غفرت لهم ما خلا المظالم فإني آخذ للمظلوم منه» قال: «أي رب إن شئت أعطيت المظلوم من الجنة وغفرت للظالم» فلم يجب عشيته فلما أصبح بالمزدلفة أعاد الدعاء فأجيب إلى ما سأل. قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم أو قال تبسم فقال له أبو بكر وعمر: بأبي أنت وأمي إن هذه لساعة ما كنت تضحك فيها فما الذي أضحكك أضحك الله سنك؟ قال: «إن عدو الله إبليس لما علم أن الله عز وجل قد استجاب دعائي وغفر لأمتي أخذ التراب فجعل يحشوه على رأسه ويدعو بالويل والثبور فأضحكني ما رأيت من جزعه» رواه ابن ماجه وروى البيهقي في كتاب البعث والنشور نحوه
حضرت عباس بن مرداس سے رواىت ہے کہ رسول اﷲ نے اپنى امت کے لئے عرفہ کى شام کو مغفرت کى دعا فرمائى۔ آپ کو جواب دىا گىا کہ مىں نے ان کى مغفرت کر دى بجز حقوق العباد کے (کہ اس مىں ظالم سے مظلوم کا بدلہ ضرور لوں گا اور بدون عذاب مغفرت نہ ہو) آپ نے عرض کىا اے پروردگار! اگر آپ چاہىں تو مظلوم کو (اس کے حق کا عوض) جنت سے دے کر ظالم کى مغفرت فرما سکتے ہىں مگر اس شام کو ىہ دعا قبول نہىں ہوئى۔ پھر جب مزدلفہ مىں آپ کو صبح ہوئى آپ نے پھر وہى دعا کى اور آپ کى درخواست قبول ہوگئى پس آپ ہنسے، اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓکے پوچھنے پر آپ نے فرماىا کہ جب ابلىس کو معلوم ہوا کہ اﷲتعالىٰ نے مىرى دعا قبول کر لى اور مىرى امت کى مغفرت فرما دى خاک لے کر اپنے سر پر ڈالتا تھا اور ہائے وائے کرتا تھا مجھ کو اس کا اضطراب دىکھ کر ہنسى آگئى۔ رواىت کىا اس کو ابن ماجہ نے اور اس کے قرىب قرىب بىہقى نے۔