کسى نىک کام کى ىا لوگوں مىں باہم اصلاح کر دىنے کى ترغىب دىتے ہىں (اور اس تعلىم وترغىب کى تکمىل و انتظام کے لئے تدبىرىں اور مشورہ کرتے ہىں ان کى سرگوشى مىں البتہ خىر ىعنى ثواب و برکت ہے (نساء ۔ آىت:114)
ف:۔ اس سے ىہ بھى معلوم ہوا کہ بعض اوقات مشورہ خفىۃ ہى مصلحت ہے۔
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَالشورى: ٣٨
فرماىا اﷲتعالىٰ نے: اور ان (مؤمنىن کا ہر) کام (جو قابل مشورہ ہو جس کا بىان اوپر آچکا ہے) آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے (شورىٰ۔ آىت:38)
ف:۔ مشورہ پر مومنىن کى مدح فرمانا مشورہ کى مدح کى صاف دلىل ہے۔
عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم شاور حين بلغه إقبال أبي سفيان. رواه مسلم
انسؓ سے (اىک لانبى حدىث مىں) رواىت ہے کہ رسول اﷲ نے (واقعہ بدر مىں جانے کے متعلق صحابہ سے) مشورہ فرماىا۔۔الخ (عىن مسلم)
ميمون بن مهران، قال: كان أبو بكر رضي الله عنه، إذا ورد عليه الخصم نظر في كتاب الله،...... فإن أعياه أن يجد فيه سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، جمع رءوس الناس وخيارهم فاستشارهم، فإذا اجتمع رأيهم على أمر، قضى به. رواه الدارمي
مىمون بن مہران سے رواىت ہے کہ (کسى مقدمہ مىں جب) حضرت ابوبکرؓ کو قرآن و حدىث مىں حکم نہ ملتا تو) بڑے لوگوں کو اور نىک لوگوں کو جمع کر کے ان سے مشورہ لىتے جب ان کى رائے متفق ہوجاتى تو اس کے موافق فىصلہ فرماتے (عىن حکمت بالغہ عن ازالۃ الخفاء عن الدارمى)