(المقاصد الحسنة عن العسكري والديلمي وغيرهما)
انس و ابو امامہ و ابن عباس وعلىؓ سے (مجموعاً و مرفوعاً) رواىت ہے کہ بىچ کى چال چلنا (ىعنى نہ کنجوسى کرے اور نہ فضول اُڑاوے بلکہ سوچ سمجھ کر اور سنبھال کر ہاتھ روک کر کفاىت
شعارى اور انتظام و اعتدال کے ساتھ ضرورت کے موقعوں مىں صرف کرے تو اس طرح خرچ کرنا) آدھى کمائى ہے جو شخص (خرچ کرنے مىں اس طرح بىچ کى چال چلے گا وہ محتاج نہىں ہوتا اور فضول اڑانے مىں زىادہ مال بھى نہىں رہتا (عىن مقاصد از عسکرى و دىلمى وغىرہا)
ف:۔ اس مىں خرچ کے انتظام کا گُر بتلا دىا گىا اور دىکھا بھى جاتا ہے کہ زىادہ تر پرىشانى و بربادى کا سبب ىہى ہے کہ خرچ کا انتظام نہىں رکھا جاتا۔ نتىجہ ىہ ہوتا ہے کہ جو ہاتھ مىں ہے وہ ختم ہوجاتا ہے پھر قرض لىنا شروع کر دىتے ہىں جس کے بُرے نتىجے بے شمار ہىں جو کہ دنىا مىں بھى دىکھے جاتے ہىں اور آخرت مىں بھى، جىسا کہ
عن محمد بن عبد الله بن جحش رضي الله عنه ..... والذي نفسي بيده لو قتل رجل في سبيل الله ثم عاش ثم قتل ثم عاش ثم قتل وعليه دين ما دخل الجنة حتى يقضى دينه. رواه النسائي والطبراني في الأوسط والحاكم واللفظ له وقال صحيح الإسناد
محمد بن عبد اﷲبن جحشؓ سے (اىک لانبى حدىث مىں) رواىت ہے کہ رسول اﷲ نے دىن کے بارے مى فرماىا (ىعنى جو کسى کا مالى حق کسى کے ذمّہ آتا ہو) قسم اس ذات کى کہ مىرى جان اس کے قبضہ مىں ہے کہ اگر کوئى شخص جہاد مىں شہىد ہوجاوے پھر زندہ ہو کر (دوبارہ) شہىد ہوجاوے پھر زندہ ہو کر (سہ بارہ) شہىد ہوجائے اور اس کے ذمّہ کسى کا دَىن آتا ہو وہ جنت مىں نہ جاوے گا جب تک اس کا دىن ادا نہ کىا جائے گا (عىن ترغىب از نسائى و طبرانى و حاکم مع لفظ وتصحىح حاکم)