ہے اور پرىشانى مىں دىن کو برباد کر لىتا ہے) اور ىہ بھى فرماىا کہ اگر ہمارے پاس ىہ اشرفىاں نہ ہوتىں تو ىہ بڑے لوگ ہمارى صافى بنا لىتے (ىعنى ذلىل و خوار سمجھتے اور ذلت سے بعض دفعہ دىن کا بھى نقصان ہوجاتا ہے ، اب مال کے سبب ہمارى عزت کرتے ہىں اور عزت کے سبب ہمارا دىن محفوظ رہتا ہے) اور ىہ بھى فرماىا کہ جس شخص کے ہاتھ مىں کچھ روپىہ پىسہ ہو اس کى درستى کرتا رہے (ىعنى اس کو بڑھاتا رہے ىا کم از کم اس کو برباد نہ کرے) کىونکہ ىہ اىسا زمانہ ہے کہ اگر کوئى (اس مىں) محتاج ہوجاتا ہے تو سب سے پہلے اپنے دىن ہى پر ہاتھ صاف کرتا ہے (جىسا ڈھال ہونے کے مطلب مىں ابھى گذرا ہے) اور ىہ بھى فرماىا کہ حلال مال فضول خرچى کى برداشت نہىں کر سکتا (ىعنى اکثر وہ اتنا ہوتا ہى نہىں کہ اس کو بے موقع اُڑاىا جاوے اور وہ پھر بھى ختم نہ ہو اس لئے اس کو سنبھال سنبھال کر ضرورت مىں خرچ کرے تاکہ جلدى ختم ہونے سے پرىشانى نہ ہو) (شرح سنہ) آگے حلال مال حاصل کرنے کے ذرىعوں کى فضىلت کا ذکر ہے۔
عن أبي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشهداء» . رواه الترمذي والدارقطني.
ابوسعىدؓ سے رواىت ہے کہ رسول اﷲ نے فرماىا کہ سچ بولنے والا تاجر(قىامت مىں) پىغمبروں اور ولىوں اور شہىدوں کے ساتھ ہوگا (ترمذى و دارقطنى)