وفى لحوم القبر) اور مقاصد والے نے کہا ہے کہ گوىا ىہ حجاز والوں کے ساتھ مخصوص ہے اور ىہ بھى کہا ہے کہ ىہ معنى پسند کئے گئے ہىں ىعنى سب علماء نے اس کو پسند کىا ہے۔
عن حنش، قال: رأيت عليا يضحي بكبشين فقلت له: ما هذا؟ فقال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه» رواه ابوداود والترمذي
حنش سے رواىت ہے کہ مَىں نے حضرت على کو دىکھا کہ دو دُنبے قربانى کئے اور فرماىا ان مىں اىک مىرى طرف سے ہے اور دوسرا رسول اﷲ کى طرف سے ہے۔ مَىں نے ان سے (اس کے متعلق) گفتگو کى انہوں نے فرماىا کہ حضور نے مجھ کو اس کا حکم دىا ہے مَىں اس کو کبھى نہ چھوڑوں گا (ابوداود و ترمذى)
ف:۔ حضور اقدس کا ہم پر بڑا حق ہے ، اگر ہم ہر سال حضور کى طرف سے بھى اىک حصہ کر دىا کرىں تو کوئى بڑى بات نہىں۔
عن أبي طلحة رضي الله عنه «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أملحين، فقال عند ذبح الأول: عن محمد وآل محمد . وقال عند ذبح الثاني: عن من آمن بي وصدقني من أمتي». رواه أبو يعلى، والطبراني، في الكبير والأوسط
ابوطلحہؓ سے رواىت ہے کہ رسول اﷲ نے (اىک دنبہ کى اپنى طرف سے قربانى فرمائى اور ) دوسرے دُنبہ کے ذبح مىں فرماىا کہ ىہ (قربانى) اس کى طرف سے ہے جو مىرى امت مىں سے مجھ پر اىمان لاىا اور جس نے مىرى تصدىق کى (موصلى و کبىر و اوسط) ىہ حدىثىں جمع الفوائد مىں ہىں۔