ف:۔ اس سے کس قدر ناراضى ٹپکتى ہے۔ کىا کوئى مسلمان رسول اﷲ کى ناراضى کى سہار کر سکتا ہے اور ىہ ناراضى اسى سے ہے جس کے ذمہ قربانى واجب ہو اور جس کو گنجائش نہ ہو اس کے لئے نہىں ہے۔ ىہ حدىثىں ترغىب مىں ہىں۔
عن جابر بن عبد الله قال: نحر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن نسائه في حجته بقرة وفي حديث ابن بكر عن عائشة بقرة في حجته. رواه مسلم
حضرت جابرؓ سے رواىت ہے کہ رسول اﷲ نے اپنے حج مىں اپنى بى بىوں کى طرف سے اىک گائے قربانى کى۔ اور اىک رواىت مىں ہے کہ آپ نے بقر عىد کے دن حضرت عائشہ کى طرف سے گائے قربانى کى (مسلم)
ف:۔ ىہ ضرور نہىں کہ اىک گائے سب بى بىوں کى طرف سے کى ہو بلکہ ممکن ہے کہ سات کے اندر اندر کى ہو اور اونٹ بکرى کثرت سے مِلتے ہوئے گائے کى قربانى فرمانا اگر اتفاقى طور پر نہ سمجھى جاوے تو ممکن ہے کہ ىہود جو بچھڑے کو پوجا کرتے تھے اس شرک کے مٹانے کے لئے آپ نے اس کا اہتمام فرماىا ہو، اور بعضى رواىتوں مىں جو گائے کے گوشت کا مرض (ىعنى مضر) ہونا آىا ہے وہ شرعى حکم نہىں ہے بطور پرہىز کے ہے جىسا کہ روح دہم نمبر9 مىں حضرت علىؓ کو کھجور کھانے سے ممانعت فرمانے کا مضمون گذر چکا ہے۔ چنانچہ حلىمى نے کہا ہے کہ اس کى وجہ ىہ ہے کہ حجاز خشک ملک ہے اور گائے کا گوشت بھى خشک ہے (مقاصد حسنہ فى علىکم