مىں آىا
ہے) اور باوجود اس کے (کہ اب مصلحت نہىں رہى مگر) ہم اس فعل کو نہ چھوڑىں گے جس کو ہم رسول اﷲ کے وقت مىں (آپ کے اتباع اور حکم سے) کرتے تھے (کىونکہ خود رسول اﷲ نے اس پر حجۃ الوداع مىں عمل فرماىا جب کہ مکہ مىں اىک بھى کافر نہ تھا (عىن ابوداود)
ف:۔ اگر حج مىں عاشقى کا رنگ غالب نہ ہوتا تو جب عقلى ضرورت ختم ہوگئى تھى ىہ فعل بھى موقوف کر دىا جاتا۔
عن عابس بن ربيعة، عن عمر، أنه جاء إلى الحجر فقبله، فقال: «إني أعلم أنك حجر لا تنفع ولا تضر ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك» رواه ابوداود
عابس بن ربىعہؓ سے رواىت ہے حضرت عمرؓ حجر اسود کى طرف آئے اور اس کو بوسہ دىا اور فرماىا مَىں جانتا ہوں تو پتھر ہے نہ(کسى کو) نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان اور اگر مَىں رسول اﷲ کو نہ دىکھتا کہ تجھ کو بوسہ دىتے تھے تو مَىں (کبھى) تجھ کو بوسہ نہ دىتا (عىن ابوداود)
ف:۔ محبوب کے علاقہ کى چىز کو چومنے کا سبب بجز عشق کے اور کونسى مصلحت ہوسکتى ہے اور حضرت عمرؓ نے اپنے اس قول سے ىہ بات ظاہر کر دى کہ مسلمان حجر