رضي الله عنه قال كانت سوداء تقم المسجد فتوفيت ليلا فلما أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبر بها فقال ألا آذنتموني فخرج بأصحابه فوقف على قبرها فكبر عليها والناس خلفه ودعا لها ثم انصرف. وفي رواية: ثم قال أي العمل وجدت أفضل قالوا يا رسول الله أتسمع قال ما أنتم بأسمع منها فذكر أنها أجابته قم المسجد. أبو الشيخ اصبهاني
حضرت ابوسعىدؓ سے رواىت ہے کہ اىک سىاہ فام عورت تھى (شاىد حبشن ہو) جو مسجد مىں جھاڑو دىا کرتى تھى ، اىک رات کو وہ مر گئى جب صبح ہوئى تو رسول اﷲ کو خبر دى گئى۔ آپ نے فرماىا تم نے مجھ کو اس کى خبر کىوں نہ کى؟ پھر آپ صحابہ کو لے کر باہر تشرىف لے گئے اور اس کى قبر پر کھڑے ہو کر اُس پر تکبىر فرمائى(مراد نماز جنازہ ہے) اور اس کے لئے دعا کى پھر واپس تشرىف لے آئے( ابن ماجہ و ابن خزىمہ) اور اىک رواىت مىں ہے کہ آپ نے اس سے پوچھا تو نے کس عمل کو زىادہ فضىلت کا پاىا اس نے جواب دىا کہ مسجد مىں جھاڑو دىنے کو (ابو الشىخ اصبہانى)
ف:۔ دىکھئے مسجد مىں جھاڑو دىنے کى بدولت اىک غرىب گمنام حبشن کى جس کى مسکنت و گمنامى کے سبب اس کى وفات کى بھى اطلاع حضور اقدس کو نہىں کى گئى ۔ حضور اقدس نے کتنى بڑى قدر فرمائى کہ اس کى وفات کى خبر نہ دىنے کى شکاىت بھى