ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
عربی زبان کی خصوصیات و اِمتیازات ( محترم جناب مضطر عباسی صاحب ) (٥) اِختصار : عالمی زبان کو مختصر ہونا چاہیے، عام طور پر اِختصار کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ زبان کا ذخیرہ الفاظ محدود ہو جیسا کہ بوڈمر(BODMER) نے سفارش کی ہے لیکن ہمارے ہاں ذخیرہ الفاظ کے محدود ہونے کے علاوہ زبان کے اِختصار میں حسب ِذیل اُمور شامل ہیں : (١) غیر ضروری کلمات نہ ہوں، جیسے اُردو میں '' ہے''، '' نے''، ''کو'' وغیرہ کلمات ہیں۔(٢) ایسے کلمات نہ ہوں جن کا کام علامات سے لیا جاسکتا ہو، جیسے کا، کی، کے وغیرہ۔ (٣) مفرد کلمات کی جگہ مرکب کلمات کا عام اِستعمال نہ ہو جیسے '' معبد'' کی جگہ ''عبادت خانہ'' ہے۔(٤) کلمات یک رُکنی یا زیادہ سے زیادہ دو رُکنی ہوں اَور بغیر معانی اَور مفہوم کے اِضافے کے کلمہ کے رُکنوں (آوازوں) میں اِضافہ نہ کیا جائے۔ عربی غیر ضروری کلمات سے پاک ہے ،اِس کے برعکس اُردو میں فاعل کی علامت '' نے'' مفعول کی علامت ''کو'' اَنگریزی میں کلمات تنکیرA اَورAN وغیرہ ایسے زائد کلمات ہیں جن کے بغیر کام چل سکتا ہے، مثلاً فارسی میں علامت فاعل کوئی نہیں اَور پڑھنے یا سننے والے کو اِس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ، اُردو میں بے جان مفعول کے ساتھ کسی قسم کی علامت نہیں ہوتی اَور نہ ہی اِس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے مثلاً'' اسلم سیب کھا رہا تھا'' قسم کے اُردو جملوں میں فاعل اَور مفعول دونوں کی علامتوں کو حذف کردیاگیا ہے، اِس کے باوجود کلام میں خرابی واقعہ نہیںہوئی۔ '' اِسپرانتو'' میں فاعل کی علامت کا وجود نہیں اَلبتہ مفعول کے آخر میں'' ن'' (N) لگاتے ہیں۔ "ASLAM LEGAS LIBRON" (اسلم کتاب پڑھتا ہے) اس میںLIBRO (کتاب) کے آخر میں