ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
میں اِن کے ہاتھ سے بیس ہزار سے زائد فتاوی تحریر ہوئے۔ اِن سب کمالات میں جان ڈالنے والی چیز تقوی اَور وہ معرفت ِ اِلٰہیہ تھی جو ذکر اِلٰہی اَور مراقبات سے مبدء ِفیاض سے عطا ہوا کرتی ہے۔ ایسا اِنسان ضرور مافوق الفطرت ہوجاتا ہے فَاِنَّ الْعِلْمَ نُوْر مِّنْ اِلٰہ وَ نُوْرُ اللّٰہِ لَا یُعْطٰی لِعَاص رُؤیت ِہلال، عائلی قوانین، مشینی ذبیحہ وغیرہ ایسے مسائل تھے جو پوری قوم سے تعلق رکھتے تھے جب اُنہوں نے اِن مسائل پر رائے دی تو وہ اَخبارات میں شائع ہوئی اَور اُن کی بالغ نظری اَور بلندترین فقہی مقام مُلک کے سب علماء کے سامنے آیا اَور اَب آخر میں مسائلِ زکوة پر گفتگو چل رہی تھی۔ غرض بنیادی طور پر حضرت مفتی صاحب ایک اَعلیٰ مدرس ،فقیہ وقت،عارف باللہ اَور متقی تھے۔ لیکن اَیوب خاں کے آخری دَور سے قیادتِ حزبِ اِختلاف اَور قیادتِ تحریکِ نظام ِ مصطفی تک وہ عوام میں بحیثیت لیڈر معروف ہوگئے۔ اَور یہ حقیقت ہے کہ اُن کی کامیاب قیادت مذکورہ بالا بنیادوں پر مبنی تھی۔ اگر کوئی اُن جیسا بننا چاہے تو اُسے یہی راہ اِختیار کرنی ہوگی ورنہ وہ فقط سیاسی شخص ہو کر رہ جائے گا اُن کی زندگی اُن کے بعد والوں کے لیے سبق ہے اَور اُصولًا یہی مذہبی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ اِحیاء ِجمعیة : حضرت مفتی صاحب کا تعلق اَکابر جمعیة علمائِ ہند سے تھا وہ سب حضرات مذکورہ بالا اَوصاف کے حامل تھے ۔قیامِ پاکستان کے بعد اِس جماعت سے تعلق رکھنے والے بزرگ شیخ التفسیر حضرت مولانا اَحمد علی صاحب رحمة اللہ علیہ مغربی پاکستان کے قلب ''لاہور'' میں تشریف فرما تھے۔ مولانا محمد نعیم صاحب لدھیانوی، مولانا عبدالحنان صاحب ہزاروی اُسی جمعیة کے پرانے اَرکان وعہدہ داران رہ چکے تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے اِن سب حضرات کو ملتان میں جمع کیا اِن کے ساتھ پورے مُلک کے چیدہ چیدہ علماء کو بھی مدعو کیا۔ اَراکین ِجمعیة علمائے اِسلام (جنکے قائد علامہ شبیر اَحمد عثمانی