ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
١٨٥٧ء تک اِس دَبستان کے مقدس بزرگوں کی اَنگریزوں کے خلاف مسلسل بغاوت جو ١٨٥٧ء میں لاکھوں اِنسانوں کی قربانی پر تمام ہوئی جن میں صرف علماء ِکرام کی تعداد تقریبًا باون ہزار بتلائی جاتی ہے جہاد ِ حریت وطن کے ایسے خونچکاں ماحول میں حضرت شیخ الہند نے جنم لیا اَور جن اَرباب عزیمت اَساتذہ سے تعلیم و تربیت پائی وہ اِسی دَبستان ولی اللٰہی کے نمائندے تھے جن کی حق گوئی و بے باکی، اِخلاص و للہیت اَور حب الوطنی ضرب المثل بن چکی تھی۔ تاریخ ِعالم کی نگاہوں نے ایسے عزیمت کے مناظر کم ہی دیکھے ہوں گے کہ ایک مرد ِقلندر اَور فقیر بے نو اَسباب و سائل سے محروم ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک دینی مدرسہ کی ٹوٹی ہوئی چٹائی اَور پھٹے پرانے ٹاٹ پر بیٹھ کر مدرسہ کے چند غریب طلباء میں اِس عزم و حوصلے اَور جرأت و وَلولے کا صور پھونک رہا ہے کہ اپنی وقت کی سب سے بڑی سپر پاور ''گریٹ برطانیہ'' کا مقابلہ کرنے اَور اُس کو شکست دینے کا جذبہ پیدا کررہاہے اَور اُن کو ذہنی طور پر تیار کر رہا ہے کہ آپ نے اُس کے اِقتدار کے سورج کو اپنے اِن ہی ناتواں ہاتھوں سے سمندر میں غرق کرنا ہے۔ حضرت شیخ الہند کے اِن ہزاروں بوریہ نشیں شاگردوں میں سے جن چند نے دریاؤں کے رُخ کو موڑ کر ایک نیا اِنقلاب برپا کیا وہ ہیں : شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین اَحمد مدنی ، بطل ِجلیل حضرت مولانا عبیداللہ سندھی ، مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب، سبحان الہند حضرت مولانا اَحمد سعید دہلوی، فخر المحدثین حضرت مولانا سیّد فخرالدین مراد آبادی، حضرت مولانا خلیل اَحمد سہارنپوری ،حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی وغیرہم۔ (جاری ہے)