ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
حال منطبق نہ ہو تو اگر کوئی دِل میں یقین رکھتا ہے زبان سے نہیں مانتا تو بھی قرآنِ پاک میں ہے کہ یہ مسلمان نہیں ہے جیسے کہ وہ جو زبان سے کہہ رہا ہے اَور دِل میں کفر ہے وہ غیر مسلم ہے منافق ہے یہاں جو فرمایا گیا اَفْضَلُھَا قَوْلُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہْ وہ قول بمعنٰی زبان سے کہنا فقط نہیں ہے بلکہ زبان سے کہنا وہ کہنا اُس طرح کہنا کہ دِل میں بھی وہی ہو ،دِل اَور زبان ایک ہوں تو سب سے بڑی اَور اَوّل چیز یہ ہے اَوّل کیوں ہے ؟ اِس واسطے کہ ساری بنیاد ہی اِس پر ہے جب وہ خدا کو ایک مان لے گا تو اِیمان ثابت ہوا جب اِیمان ثابت ہوگا تب حکم ہوگا کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو ، زکوة دو، حج کرو یا اَور نیکیاں کرو اِس لیے اَفْضَلُھَا تو وہ ہوا۔ حسن ِ خُلق اَور مخلوق کا بھلا چاہنا اِیمانیات سے ہے : اَور کم سے کم( درجہ اِیمان کا) کیا ہے ؟ کم سے کم میں رسول اللہ ۖ نے یہ نہیں بتایا کہ نمازیں پڑھے یا یہ کرے نہیں بلکہ عام مخلوق کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے وہ بتایا ہے ہمارے خیال میں بھی نہیں آتا کہ کسی سے اچھے اَخلاق سے بات کرنا ثواب کی بات ہے حالانکہ بہت بڑے ثواب کی بات ہے دَرَجَةَ قَائِمِ اللَّیْلِ وَصَائِمِ النَّھَارِ ١ اَخلاق سے بات کرنا ایسی بڑی چیز ہے کہ جیسے رات بھر عبادت کی ہو اَور دِن بھر روزہ رکھا ہو ایسے ہے۔ تو ہم اِسے سمجھتے ہی نہیں کہ یہ ثواب ہے حالانکہ ہم ثواب کی نیت سے حسن ِ اَخلاق اگر اِختیار کریں تو کایہ پلٹ جائے ہماری خود بخود۔ ہر وقت ہمیں ثواب ملحوظ ہوگا اَور غصہ بھی آتا ہوگا وہ بھی دبائیں گے کیونکہ ثواب ملحوظ ہے یہاں۔ فرمایا گیا اَدْنَاھَا اِمَاطَةُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ ٢ کم سے کم درجہ یہ ہے کہ راستے سے تکلیف کی چیز ہٹا دے ،کانٹا ہے آدمی کے اُلجھ جائے گا یا چبھ جائے گا، شیشہ پڑا ہوا ہے ننگے پاؤں جو گزرے گا وہ زخمی ہوجائے گا اِینٹ پڑی ہے کمزور نظر والا گزرے گا ٹھوکر لگے گی اِن چیزوں کو ہٹا دینا راستے سے(یہ اِیمان کا اَدنیٰ درجہ ہے) ۔ ١ شرح السنة للبغوی کتاب الاستئذان رقم الحدیث ٣٥٠٠ ٢ مشکوة شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥