ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
شریعت کی رُو سے جائز نہیں کیونکہ یہ تو رأس المال کی ضمانت دینا ہے جو جائز نہیں ہے۔ (٢) حقیقی قیمت یعنی نیٹ (صافی) موجودات میں جو صک کا حصہ ہے اُس پر صکوک واپس لینا کیونکہ یہ ایسا معاملہ جو نہ صرف فقہی اُصولوں کے موافق ہے بلکہ شریعت ِاِسلامیہ کے تقاضۂ عدل کے بھی موافق ہے۔ (٣) رہا مارکیٹ ریٹ پر اِسترداد تو یہ شرعًا جائز ہے کیونکہ یہ موجودات کے غیر متعین حصے کو باہمی رضا مندی سے فروخت کرنا ہے۔ معاییر شرعیہ میں ہے : (١) وہ صکوک جو تداول(تجارت) کے قابل ہیں اُن کو جاری کرنے والا اپنے منشورمیں یہ عہد کر سکتا ہے کہ صکوک کے اِجراء کے عمل کے پورا ہونے کے بعد جو صکوک اِس کے سامنے بیع کے لیے پیش کیے جائیں گے اُن کووہ مارکیٹ ریٹ پر خرید لے گا۔ اَلبتہ قیمت اِسمیہ پر خریدنے کا عہد کرنا جائز نہیں ہے۔ (٢) کرائے پر دیے ہوئے موجودات میں ملکیت کے صکوک کی مدت ختم ہونے سے پہلے اِسترداد کے وقت کے مارکیٹ ریٹ پر یا جس ریٹ پر طرفین راضی ہوجائیں اِسترداد جائزہے۔ (٣) صکوک جاری کرنے والے کی طرف سے مار کیٹ ریٹ پر واپس خریدنے کی تعیین یہ بذات ِ خود خریداری نہیں ہے بلکہ خریدنے کا اِیجاب یا اُس کا وعدہ ہے اَور حقیقی خرید اُس وقت ہوگی جب اِیجاب و قبول ایک وقت میں ہوں یعنی جب حامل ِصک اِسترداد طلب کرے۔ (٤) غرض صکوک کو جاری کرنے والا جب اِسترداد کے دِن کے مارکیٹ ریٹ پر خریدنے کا وعدہ کرے تو اِس کے جواز میں کوئی شرعی رُکاوٹ نہیں ہے بلکہ عدل اِسی کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ مارکیٹ ریٹ ضبط میں آنے والی چیز ہے اَور(یہ مسلّمہ