ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
سازشیں گھڑنے کے لیے مرکز کا کام دیتی تھی اَور آزاد علاقہ کو جانے اَور وہاں سے آنے والے سازشی اِس میں ٹھہرا کرتے تھے۔ '' تحریک شیخ الہند ص ٣٩١(اِنڈیا آفس لندن میں محفوظ ریکارڈ کا اُردو ترجمہ) اِس وقت موجودہ حضرات میں حضرت مولانا اَحمد علی صاحب رحمة اللہ علیہ ہی اِمارتِ جماعت کے لیے سب سے موزوں تھے اُنہیں ہی اَمیر منتخب کیا گیا دیگر عہدہ دَاران کا بھی اِنتخاب ہوا۔ اِسلامی طرزِ سیاست : حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ جس جماعت کے ساتھ زمانۂ طالب ِعلمی سے وابستہ ہوئے تھے وہ یہی جماعت تھی، علم اَور تقوے کی طرح سنجیدگی اَور اِعتدالِ فکر اِس جماعت کی شان رہی ہے۔ (١) اِس جماعت میں علماء کی طرح سجادۂ نشین حضرات اَور دیگر تعلیم یافتہ طبقے اَور عوام سب ہی شامل رہتے آئے ہیں۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کی حیات ِطیبہ اَور اُن کی ''تحریک ریشمی رُومال'' کے مطالعہ سے جمعیة کے ماضی قریب کی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ (٢) اِس جماعت میں ہمیشہ بکثرت اہل اللہ شامل چلے آئے ہیں۔ (٣) اَفراط و تفریط، بدزبانی، بیہودہ گفتگو، ترش رُوئی، سب و شتم، تکفیر وغیرہ جیسی چیزیں اِس جماعت کے مزاح کے خلاف ہیں۔ اِیثارو قربانی، بے لوثی، للہیت اِس کا طرۂ اِمتیاز ہے۔ جبکہ آج کل مسلم ممالک میں بھی اَنگریزی سیاست ہی مروج ہے جس میں اِفراط و تفریط، بدزبانی، جھوٹ وغیرہ سب لوازم سیاست میں شمار کیے جاتے ہیں ۔اِس قسم کی سیاست سے اِسلام نے منع کردیا ہے یہ آج سے چودہ سو سال پہلے بھی کافروں کی سیاست تھی اَور آج بھی ہے مگر اِسلام نے اِسے سمجھنا ضروری اَور اِس کا اِستعمال ممنوع قرار دیا ہے۔ آخری دَور میں آپ نے دیکھا کہ بھٹو صاحب نے دَولتانہ، قیوم خاں وغیرہ کا کس کس قسم کا مذاق اُڑایا اَور پھر اُنہیں ہی عہدے دیے۔ یہی آج کل کی رائج الوقت سیاست ہے۔ کہا جاتا ہے : ''سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی ''