ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
تاحیات رہا ہے کہ وہ کبھی کبھی اِس کی مجلس ِشوری میں شرکت کرتے رہے ہیں) (ج) مولانا آزاد سے قریبی تعلق رکھنے والے سینکڑوں اَفراد پاکستان آئے ہیں اُن سے مل کر بھی آئے ہیں اُن سے اِجازت لے کر بھی آئے ہیں اُنہوں نے ہر بااَثر کارکن کو یہی ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان جا کر اِس کے اِستحکام اَور مضبوطی کے لیے کوشاں رہے۔ (د) حضرت مولانا اَلسیّد حسین اَحمد مدنی رحمة اللہ علیہ ١٤ اگست ١٩٤٧ء تک پاکستان بننے کی مخالفت کرنے والوں میں سب سے آگے تھے وہ کہتے تھے کہ اِس سے اِسلام اَور مسلمانوں دونوں کو سخت نقصان پہنچے گا لیکن ١٤ اگست کے بعد اِسی پاکستان کو اِس کے بن جانے کے بعد تسلیم کرلیا اَور جب کسی نے ایک مجلس میں پوچھا کہ حضرت پاکستان کے لیے اَب آپ کا کیاخیال ہے تو حسب ِمعمول سنجیدگی وبشاشت سے فرمایا کہ : '' مسجد جب تک نہ بنے اِختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جب وہ بن گئی تو مسجد ہے '' (شیخ الاسلام نمبر اَ لجمعیة دہلی ص ٧١ کالم نمبر ١ ) (ہ) نواب زادہ لیاقت علی خاں شہید ہوئے تو اِس پر بعض حضرات نے کہا کہ مقتولین فی سبیل اللہ میں اِن کا شمار نہیں ہے اِس لیے وہ شہید نہیں ہیں۔ سیّدرشید الدین صاحب نے ظہر بعد مجلس میں جب معترضین بھی تشریف فرما تھے باآوازِ بلند تفصیل کے ساتھ اِستفسار کیا۔ حضرت نے فرمایا : '' کون جاہل اِس میں شک کرتا ہے بیشک وہ شہید ہوئے '' (روزنامہ اَلجمعیة شیخ الاسلام نمبر ص١٢٣ کالم نمبر ٤ ) نواب زادہ لیاقت علی خاں مرحوم سہارنپور کے متصل ضلع کے رہنے والے تھے، بہت مخالفت رہی تھی لیکن حضرت مدنی رحمةاللہ علیہ کا اِعتدال و اِنصاف ملاحظہ ہو۔ برکفے جام شریعت برکفے سندانِ عشق ہر ہوسناکے نداند جام و سنداں باختن