ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2012 |
اكستان |
|
اُس وقت اِتنے زیادہ اِختلاف کے موقع پر کھلے اَلفاظ میں دعوت ِغورو فکر دینا اَور کھلے دِل سے ساتھ دینے کا وعدہ شائع کرنا نہایت دَرجہ اِعتدال پسندی ظاہر کرتا ہے ،اِسی طرح حضرت مدنی کی تحریرات میں اِختلاف کے باوجود کئی جگہ یہ ذکر بھی موجود ہے کہ مسلم لیگ کے ذمہ دار حضرات کشمیر بھی پاکستان میں داخل کریں کیونکہ پاکستان میں'' کاف'' کشمیر کا ہے۔ اُنہوں نے جالندھرڈویژن کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ تقسیم کا اُصول تسلیم کر لیے جانے کے بعد اِس ڈویژن میں یہ اُصولی سوالات اُٹھیں گے۔ سب کے علم میں ہے کہ اِس کے بالمقابل مسلم لیگ کا نظریہ تھا کہ تقسیم ِ ملک ہو۔ مسلم لیگ اِلیکشن میں کامیاب ہو گئی (اَور) تقسیم منظور ہو گئی۔ (ب) مولانا اَبو الکلام آزاد کانگریس میں کام کرتے تھے لیکن وہ اِبتدائی دَور میں حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کی تحریک کے اہم ممبر رہے تھے۔ اُس وقت اُن کے بارے میں اَنگریز کی سی آئی ڈی رپورٹ یہ تھی : ''محی الدین کنیت ،اَبو الکلام آزاد ''اَلہلال'' کا بدنام اَیڈیٹر، اَنجمن حزب اللہ اَور کلکتہ دارُ الارشاد کالج کا بانی،دِلی کا باشندہ ہے لیکن تعلیم عرب میں پائی ہے، اِنتہائی درجہ میں اِتحاد اِسلامی کا حامی ہے نہایت کٹر اَنگریز دُشمن اَور بے حد متعصب ہے۔ دیوبند کی سازشِ جہاد کا نہایت سرگرم رُکن تھا۔ یقین کیا جاتا ہے کہ حالیہ شورش میں اِس نے ہندوستانی متعصبوں کو روپے کی اَور دُوسری طرح کی مدد دی ہے۔ جنود ِربانیہ کی فہرست میں لیفٹینینٹ جنرل ہے۔'' (تحریک ِشیخ الہند ص ٣٨٨ ) کہنے کی بات یہ ہے کہ جس وقت مسلم لیگ اِلیکشن میں کامیاب ہوگئی تو وہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مان لی گئی۔ مولانا آزاد نے اپنی رائے جو حدود ِ پاکستان کے بارے میں تھی مسلم لیگ کے اَعلیٰ ذمہ دار حضرات تک پہنچائی کہ پنجاب کی تقسیم ہر گز نہ مانیں۔اِختلاف کے باوجود اُن کے نزدیک جو بہترین رائے ہو سکتی تھی وہ اُنہوں نے پیش کی یہی وہ اِعتدالِ فکر ہے جو اِس جماعت کا اَور اِس جماعت سے قریب یا متعلق حضرات کاخاصہ رہا ہے۔ (مولانا آزاد کااِتنا تعلق جمعیة علماء سے