ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
ہے مگر اِس میں منٹ کا توقف نہیں ہوتا بلکہ معیاد سے پہلے انتظام کر لینا واجب ہے۔ اَب فرمائیے کہ اِس طرح اَور اِس نیت سے مال خرچ کرنا اَور گھر والوں کے لینے دینے کا ذریعہ بننا کہاں جائز ہے۔ کیونکہ دینے والے کی نیت تو محض اپنی بڑائی اَور نیک نامی ہے جس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص شہرت کا کپڑا پہنے گا قیامت میں اللہ تعالیٰ اُس کو ذِلت کا لباس پہنائیں گے یعنی جو کپڑا خاص شہرت کی نیت سے پہنا جائے اُس پر عذاب ہوگا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کوئی کام شہرت وناموری کی نیت سے جائز نہیں۔ اَور یہاں تو خاص یہی نیت ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کہیں گے کہ فلاں نے اِتنا دیا ورنہ طعنہ دیں گے کہ اِتنے کنجوس ہیں ایسے آنے کی کیا ضرورت تھی، دینے والے کو تو یہ گناہ ہوا۔ اَب لینے والے کو سنیے۔ حدیث میں آیا ہے کہ مسلمان کا مال اُس کی دِلی خوشی کے بغیر حلال نہیں۔ سو جب کسی شخص نے جبرًا کراہت سے دیا تو لینے والے کو لینے کا گناہ ہوا۔ اگر دینے والا با وسعت ہے (صاحب ِ حیثیت ہے ) اَور اِس پر جبر بھی نہیں ہوا۔ مگر غرض تو اُس کی بھی وہی شیخی اَور فخر کرنا ہے جس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے اُن لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے جو فخر کے لیے کھانا کھلائیں۔ غرض ایسے شخص کا کھانا یا اُس کی چیز لینا بھی ممنوع ہے کیونکہ اُس کی معصیت کی اَعانت(مدد) ہے اَور معصیت کی اَعانت کرنا خود معصیت ہے۔ غرض لینے ولا بھی گناہ سے نہ بچا۔ اَ ب گھر والوں کو لیجیے کہ وہی لوگ بُلابُلا کر اُن گناہوں کا سبب ہوئے تو وہ بھی گناہ گار ہوئے غرض کہ اچھا نیوتہ ہوا کہ سب کو گناہ میں ملوث کردیا۔ اَور نیوتہ کی رسم تو اکثر تقریبوں میں اَدا کی جاتی ہے۔ اِس میں مذکورہ خرابیوں کے علاوہ ایک خرابی اَور بھی ہے وہ یہ کہ جو نیوتہ آتا ہے وہ سب باقاعدہ اَلْمَعْرُوْفُ کَالْمَشْرُوْطِ اپنے ذمہ قرض ہوجاتا ہے اَور قرض کا بِلا ضرورت لینا منع ہے۔ پھر قرض کا یہ حکم ہے کہ جب کبھی اپنے پاس ہوا اَدا کرنا ضروری ہے اَور یہاں یہ انتظار کرنا پڑتا ہے کہ اِس کے یہاں جب کوئی کام ہو تب اَدا کیا جائے۔ اگر کوئی شخص نیوتہ کا بدلہ ایک آدہ ہی دِن کے بعد دینے لگے تو ہر گز کوئی قبول نہ کرے، یہ دُوسرا گناہ ہوا۔ اَور قرض کا حکم یہ ہے کہ گنجائش ہو اَدا کرو، پاس میں نہ ہو تو نہ دو جب ہوگا دے دیا جائے گا۔ اَور یہاں حال یہ ہے کہ گنجائش ہو یا نہ ہو مگر اُس وقت اَدا کرنا واجب ہے۔ غرض تینوں حالتوں میں شریعت کی