ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2009 |
اكستان |
|
تیسرا سوال : اگر مذکورہ متنازع مقامات پر رفع یدین نہ کرنے کے باوجود نماز صحیح ہوجاتی ہے تو پھر اِن مقامات پر رفع یدین کرنے کی بابت اِس قدر اِصرار اور شدت کیوں برتی جاتی ہے اور اِس پر ہر وقت مناظرہ ومجادلہ اور بحث وتکرار کو کیوں اپنایا جاتا ہے؟ اور اگر مذکورہ مقامات پر رفع یدین نہ کرنے کی وجہ سے نماز نہیں ہوتی یا ناقص ہوتی ہے تو اُن تمام صحابہ ، تابعین، تبع تابعین، فقہاء ،محدثین، مفسرین، اَولیائِ کرام اور بزرگانِ دین کی نمازوں کا کیا بنے گا جو اِن مقامات پر رفع یدین کیے بغیر نمازیں پڑھتے رہے ؟ اگر اِن تمام حضرات کے رفع یدین کے بغیر نماز پڑھنے کا ثبوت درکار ہو تو ترمذی شریف دیکھ لیجیے اس میں امام ترمذی نے مذکورہ مقامات پر رفع یدین نہ کرنے کی حدیث ذکر کرنے کے بعد آگے لکھا ہے : '' قَالَ اَبُوْ عِیْسٰی حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ حَدِیْث حَسَن ، وَبِہ یَقُوْلُ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنْ اَھْلِ الْعِلْمِ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِیْنَ وَھُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ وَاَھْلِ الْکُوْفَةِ ۔'' ١ ابو عیسیٰ (یعنی امام ترمذی) فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کی حدیث حَسَنْ ہے، اور اِسی کے قائل ہیں بے شمار اہل علم صحابۂ کرام اور تابعین۔ یہی حضرت سفیان ثوری اور اہلِ کوفہ کا قول ہے۔ یاد رہے جس زمانہ کی حضرت امام ترمذی بات کررہے ہیں اُس زمانہ میں کوفہ کے اندر بڑے بڑے محدثین، مفسرین، اولیائِ کرام اور بزرگانِ دین رہتے تھے۔ اِسی لیے امام بخاری فرماتے ہیں : '' مجھے لا تعداد مرتبہ علمِ حدیث حاصل کرنے کے لیے کوفہ جانا پڑا ہے۔'' ٢ چوتھا سوال : غیر مقلدین حضرات چار رکعت والی نماز کے اَندر دس مقامات پر کندھوں تک رفع یدین کرتے ہیں اور اَٹھارہ مقامات پر (یعنی پہلی رکعت کے پہلے سجدہ میں جاتے اُٹھتے ،دُوسرے سجدہ میں جاتے اُٹھتے، دُوسری رکعت کے شروع میںاورپہلے سجدہ میں جاتے اُٹھتے، دُوسرے سجدہ میں جاتے اُٹھتے، تیسری رکعت کے پہلے سجدہ میں جاتے اُٹھتے ،دُوسرے سجدہ میں جاتے اُٹھتے، چوتھی رکعت کے شروع میں اور پہلے سجدہ ١ ترمذی ج:١ ص:٥٩ باب رفع الیدین عند الرکوع ، ٢ ھدی ا لساری مقدمہ فتح الباری ص:٤٧٨