ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( طلاق کابیان ) کن حالتوں میں طلاق ہوتی ہے اورکن میں نہیں ؟ - 1 طلاق دینے کااِرادہ ہویانہ ہو جب شوہرطلاق کے الفاظ منہ سے نکال دے توطلاق واقع ہو جاتی ہے مثلاًشوہرکی طلاق دینے کی نیت نہ تھی لیکن بیوی کوڈرانے کے لیے یااُس سے مذاق کی خاطراُس کو کہہ دیا کہ تجھے طلاق ہے توطلاق واقع ہوجائے گی۔ عدالت کے نزدیک (یعنی قضاء میں)بھی اوردیانت میں (یعنی حقیقت میں اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک)بھی۔ اِس کی وضاحت یہ ہے کہ رسول اللہ ۖنے اِرشادفرمایا ثَلاَث جِدُّہُنَّ جِدّ وَھَزْلُہُنَّ جِدّ یعنی تین چیزیں ایسی ہیں کہ وہ مرادہوں یانہ ہوں لیکن وہ واقع ہوجاتی ہیں، اُن میں سے ایک طلاق ہے۔ توطلاق ایسی چیزہے جوجب دی جائے خواہ طلاق کا واقعی اِرادہ ہویانہ ہو حقیقت اورنفس الامرمیں واقع ہو جاتی ہے۔ - 2 اگر شوہر کے منہ سے خطاء سے طلاق کے الفاظ نکل جائیں مثلاًشوہر کہنا چاہتا تھا کہ وہ پگلی ہے اور خطا سے وہ طلاقن ہے کے الفاظ نکل گئے تو چونکہ شوہر طلاق کے الفاظ کہنا نہیں چاہتاتھا اور وہ اپنی بات میں سچا ہو تو نفس الامر میں اور دیانت میں طلاق نہ ہو گی۔لہٰذا اگر اِس سے تنہائی میں الفاظ نکل گئے ہوں اور خطاء کو سمجھتے ہوئے اس بات کو اپنے تک محدود رکھے اور بیوی کو اِس کا علم نہ ہونے دے تو دُرست ہے اور طلاق شمار نہ ہو گی۔لیکن اگر اِس سے یہ الفاظ بیوی کے سامنے نکلے ہوں یا اِس تک پہنچ گئے ہوں یا عدالت تک پہنچا دیے گئے ہوں تو چونکہ قصداً کہنا یا خطاء سے کہنا ایک مخفی اَمر ہے جس تک براہ راست رسائی اِنسانوں کے بس کی بات نہیں کیونکہ اِس کاتعلق نیت واِرادہ سے ہے اور نیت کو جاننے کا سوائے اِس کے کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ کہنے والا خود بتائے ۔لیکن یہاں یہ تہمت موجود ہے کہ آدمی نے قصداً وعمداً الفاظ کہے ہوں اور اَب اپنا نقصان محسوس کرکے بات بنادی ہو کہ الفاظ اِس کے منہ سے خطاء سے نکل گئے ہیں ۔ظاہر الفاظ کے ہوتے ہوئے عدالت اِس تہمت