ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
کے سامنے وہ چیزیں آچکتی ہیں تو ہوتاہے،اور اللہ کے اعتبار سے وہ جو آنے والی ہیں وہ بھی ایسی ہی ہیں جیسا کہ ہوچکیں ۔ یہاںیہ فضیلت آئی ہے اُن صحابۂ کرام کی جنہوں نے اہم موقع پر اہم کام انجام دِیے اہم موقع پر کوئی کوتاہی نہیں دکھائی اُن صحابۂ کرام کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں۔ اہل ِ بدر نے کوئی کوتاہی نہیں دکھائی اور اہل ِ حدیبیہ پر نازک موقع تھا مدینہ طیبہ سے بہت فاصلہ تھا کوئی سپلائی وغیرہ کا سلسلہ ایسا نہیں تھا مکہ مکرمہ کفار کا گھر تھا اور گڑھ تھا وہاں صحابۂ کرام جمے ہیں۔ ''موت پر بیعت '' اور اُس کا مطلب : اور کوئی کوئی صحابی یہ بھی کہتے ہیں جب اُن سے پوچھا گیا کہ بیعت جو کی تھی تم نے رسول اللہ ۖ کے دست ِ مبارک پر تو وہ کیا تھی؟ تو وہ کہتے ہیں کہ'' موت پر بیعت'' کی تھی۔اَب'' موت پر بیعت'' کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم جمیں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے مارے جائیں یہ مطلب تو نہیں کہ ضرور مارے ہی جائیں گے۔ ''موت پر بیعت'' کا مطلب یہ ہے کہ بالکل پیچھے ہٹیں گے نہیں موت عزیز ہے بہ نسبت پیچھے ہٹنے کے ،بہ نسبت جناب کا ساتھ نہ دینے کے موت عزیز ہے، جناب کا ساتھ ہم ہرحال میں دیں گے چاہے موت آجائے اور بالکل تیار تھے اور قوت ِایمانی سے وہ بھرے ہوئے تھے وہ کہتے تھے کہ ہم تو اَبھی منٹوں میں اِنہیں ختم کیے دیتے ہیں اِس طرح کا اُن کا جوش اور جذبہ تھا۔ تو رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے بیعت لی وہاں اور اُنہوں نے خوشی خوشی بیعت کی تو یہ قوت ِ ایمانی اور یہ کیفیت ہے تو سب خدا کی عطا۔ سب کام اللہ کرتا ہے مگر اسکا احسان ہے کہ وہ ان کو بندوں کی طرف منسوب فرماتا ہے : لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ وہ اِنسانوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں کہ تم نے یہ کام کیا حالانکہ وہ کام انسان نہیں کرتا بلکہ توفیق ہوتی ہے خدا کی طرف سے پھر وہ کرتا ہے تو حقیقتًا تو سب اُسی کا فضل ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا دُوسرا فضل یہ ہوتا ہے کہ نسبت بندوںکی طرف کردیتے ہیں کہ تم نے یہ کام کیا ہے تو لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ تو آپ سے درخت کے نیچے وہ بیعت کررہے تھے فَعَلِمَ مَافِیْ قُلُوْبِھِمْ اللہ تعالیٰ نے آزمائش سے گزاردیا اُس کیفیت کو جو اُن کے دلوں میں تھی