ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
''اب بنیادی سوال یہ اُبھرتا ہے کہ کیا قانونی شخص کا تصور شریعت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ جب اس کو تسلیم کرلیا جائے کہ شخص قانونی کو باوجود فرضی ہونے کے مالی معاملات میں شخص حقیقی کی طرح اعتبار کیا جاسکتا ہے تو اس کے منطقی نتیجہ کے طور پر محدود ذمہ داری کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا''۔ غرض مولانا عثمانی مدظلہ کے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ شخص قانونی کے نظائر اسلام میں موجود ہیں اس لئے کمپنی کو شخص قانونی ماننا خلاف اسلام نہیں اور شخص قانونی کو تسلیم کرنے کو یہ لازم ہے کہ اس کی ذمہ داری محدود تسلیم کی جائے۔ اُوپر ہم کمپنی کے شخص قانونی ہونے کی حقیقت بتا چکے ہیں جس سے یہ بھی واضح ہوا کہ غیر شرعی قانون جہاں چاہتا ہے شخص حقیقی کو یکسر نظر انداز کر کے فرضی شخصیت کا اعتبار کرنے لگتا ہے۔ غرض شخص قانونی کے وجود و عدم میں مدار ملکی غیر شرعی قانون کے اعتبار کرنے نہ کرنے کا ہے۔ لیکن مولانا عثمانی مدظلہ نے اس بات سے کچھ تعرض نہیں کیا کہ شریعت کی رو سے شخص قانونی کے وجود و عدم وجود کا مدار کس پر ہے؟ شخص قانونی کے وجود و عدم کا شرعی معیار : مولانا عثمانی کے بتائے ہوئے وقف و بیت المال کے نظائر کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم شریعت کی رُو سے شخص قانونی کے وجود و عدم وجود کا مدار بتاتے ہیں۔ وقف اور بیت المال کے ساتھ کچھ حقوق اور ذمہ داریاں وابستہ ہوتی ہیں لیکن وہ محض معنوی یا بے جان ہونے کی وجہ سے نہ خود اپنے حقوق کی تحصیل کرسکتے ہیں اور نہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے لیے ایک متولی یا نگران مقرر کیا جاتا ہے جو ان کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور ان کی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہے۔ ان اداروں کے اثاثہ جات سے چونکہ اس متولی کا کوئی مالکانہ تعلق نہیں ہوتا اس لیے حقوق و ذمہ داریوں کو اس سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے مجبوراً ادارہ ہی کی طرف ان کو منسوب کیا جاتا ہے اور اس لیے ادارہ کو معنوی شخص یا قانونی شخص کہا جاتا ہے۔ اور جہاں کوئی ادارہ ایسا ہو کہ اُس کے متولی و منتظم کی سرمایہ کاری اور اُس کے مفادات اِس ادارے سے وابستہ ہوں اور اِس کے تصرفات کا فائدہ بالواسطہ یا بلاواسطہ خود اسی کو ہو تو حقوق و ذمہ داریاں خود اِسی کے