ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
کا حصہ نہیں بن جاتی بلکہ وہ وقف کی مملوک کہلاتی ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حقیقی شخص کی طرح وقف بھی جائیدا د کا مالک بن سکتا ہے۔ -ii مسجد کو جو رقم چندہ کی گئی وہ وقف کا حصہ نہیں بنتی بلکہ مسجد کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی مسجد کو رقم کا مالک تسلیم کیا گیا ہے۔ بعض مالکی فقہاء نے اس بات کو صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ مسجد کسی چیز کا مالک بننے کی اہلیت رکھتی ہے اگرچہ مسجد کی یہ اہلیت معنوی ہے جبکہ انسان کی اہلیت حسی ہوتی ہے۔ مشہور مالکی فقیہ احمد دردیر کہتے ہیں کہ مسجد کیلئے کی گئی وصیت جائز ہے اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مسجد جائیداد کی مالک بن سکتی ہے۔ وہ یہی حکم سرائے اور پل کیلئے بھی مانتے ہیں۔ غرض وقف اگرچہ آدمی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود فقہاء ملکیت کے اعتبار سے اس کو آدمی کی طرح دیکھتے ہیں۔ اور جب وقف کیلئے ملکیت ثابت ہوئی تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ خرید و فروخت بھی کرسکتا ہے اور مقروض بھی ہوسکتا ہے اور قرض دہندہ بھی اور مدعی بھی بن سکتا ہے اور مدعا علیہ بھی۔ غرض قانونی شخص کے تمام خواص کو وقف کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے۔ -2 بیت المال : عامتہ الناس کی جائیداد ہونے کی وجہ سے اگرچہ اسلامی ریاست کے تمام افراد بیت المال پر منفعتی حق رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی اس کا مالک نہیں ہوتا۔ پھر بھی بیت المال کے کچھ حقوق و ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ مشہور حنفی فقیہ امام سرخسی مبسوط میں لکھتے ہیں کہ ''بیت المال کے کچھ حقوق و ذمہ داریاں ہیں جو متعین نہیں ہیں'' ایک اور مقام پر وہ لکھتے ہیں ''اگر اسلامی ریاست کے امیر کو فوج کی تنخواہیں دینے کیلئے رقم کی ضرورت ہو اور خراج والے حصہ میں رقم نہ ہو تو وہ صدقہ و زکوٰة والے حصہ سے لے کر دے سکتا ہے لیکن یہ خراج والے حصہ پر قرض شمار ہوگا۔''