ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
عورتوں کو بے پردہ کہتی ہیں حالانکہ پردہ دار عورت وہ ہے کہ جس جس سے شریعت میں پردہ ہے اُن سے پردہ کرے۔ پردہ کے ساتھ قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ مرد کے ساتھ نرم لہجہ میں گفتگو بھی مت کرو اِسی طرح آواز کا بھی پردہ ہے۔ (العاقلات ملحقہ حقوق الزوجین) ٭ عورتوں کو اِس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ کپڑا شریعت کے موافق ہو بڑا چھوٹا نہ ہو اِس میں بدن نہ جھلکتا ہو۔ ٭ آج کل بہت سی عورتوں کو فیشن کا بہت اہتمام ہوگیا ہے۔ دُوسری قوموں کی وضع بناتی ہیں، ساڑھی پہننے لگی ہیں۔ بعضی عورتیں (مردانہ) کھڑے جوتے پہنتی ہیں۔ حدیث شریف میں اِس پر لعنت آئی ہے کہ عورتیں مرد کی وضع اختیار کریں۔ ٭ بعض عورتیں گھر کا کام نہیں کرتیں اور گھر کی نگرانی نہیں کرتیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ عورتیں گھر میں حاکم (ذمّہ دار) ہیں گھر کے انتظام کے متعلق اِن سے پوچھا جائے گا۔ نگرانی نہ کرنے سے گھر میں چوری ہوتی ہے اِس کا بہت خیال رکھنا چاہیے اور گھر کا کام کرنا چاہیے دُوسروں پر نہ چھوڑنا چاہیے۔ (العاقلات الغافلات) چند اور کوتاہیاں : ٭ عورتوں کی معاشرت بالکل خراب ہے۔ اکثر عورتوں میں پردہ بہت ہی کم ہے اور سر تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے خصوصًا آدھا سر تو گویا ڈھانپنا ضروری ہی نہیں۔ ٭ اکثر عورتیں زیور ایسا پہنتی ہیں جس میں آواز پیدا ہوتی ہے۔ یاد رکھو! ایسا زیور پہننا جائز نہیں۔ ہاں آپس میں لگ کر بجے اور قدم بھی آہستہ سے رکھا جائے کہ اِس میں زیادہ آواز پیدا نہ ہو تو جائز ہے۔ ٭ عورتوں میں ایک مرض یہ ہے کہ اپنے گھر میں تو بالکل میلی کچیلی خراب حالت میں رہیں گی اور جب برادری میں جائیں گے تو خوب بن سنور کر بلکہ پڑوسن تک کے زیور مانگ کر لے جائیں گی اور بجتا ہوا زیور ضرور پہنیں گی اور لباس ایسا پہنیں گی کہ اِس میں ذرا بھی پردہ نہیں ہوتا اور سارا بدن جھلکتا ہے۔ عورتیں اگر یہ طریقہ اختیار کریں کہ کپڑے میلے ہوں تو بدل لیا کریں ورنہ ہرگز نہ بدلیں بلکہ جہاں جانا ہو ویسے ہی ہو آیا کریں تو بہت فتنوں سے نجات ہوجائے اِس کو معمولی بات نہ سمجھیں ( باقی صفحہ ١١ )