ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
لیے کہ لوگ اِن کے ذریعہ (جنگل و دریا میں) راستہ معلوم کرسکیں۔ جس شخص نے اِن (ستاروں) میں کوئی اور غرض بیان کی تو اُس نے خطا کی اور اپنا حصّہ ضائع کیا اور اُس چیز کا تکلف کیا جس کو وہ نہیں جانتا (یعنی اُس چیز کے جاننے کا دعوٰی کیا جس کا اُس کو کوئی علم نہیں) ۔ ف : حدیث ِ پاک میں اپنا حصّہ ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے اپنے آپ کو اِس طرح لایعنی اور بے کار اُمور میں مبتلا کیا جن کا کوئی فائدہ نہ دُنیا میں حاصل ہوتا ہے نہ آخرت میں، اِس طرح اُس نے گویا اپنی عمر عزیز کا قیمتی حصّہ ضائع کیا۔ بقیہ : کمپنیوں کی محدود ذمہ داری کی شرعی حیثیت -2 کمپنی کو قرض عام طور سے بینکوں اور مالی اداروں سے ملتے ہیں جو کمپنی سے بھی بڑھ کر سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔ وہ رہن و گروی کے بغیر تو قرض دیتے ہی نہیں۔ کمپنی کے مالی خسارہ یا خستہ حالات کے باوجود اگر وہ مالیاتی ادارے رہن کی اصل مالیت سے کہیں بڑھ کر قرض دیتے ہیں تو ایسا ان کے ملازمین کی کمپنی کے ساتھ ملی بھگت سے ہی ہوسکتا ہے۔ -3 کمپنی کی مالی حالت کچھ کمزور دیکھ کر بھی اگر کوئی اس کے ساتھ دین کا معاملہ کرتا ہے تو دین کی وصولی کی توقع پر کرتا ہے۔ خواہ اصالتہ یا تحلیل شدہ کمپنی کے اثاثوں سے۔ معافی کی نوبت تو اس کے بعد آتی ہے اور کمپنی کو قانونی طور پر جو محدود ذمہ داری حاصل ہے اس کی بنیاد پر اس کی طرف معافی طلب کرنے کو منسوب بھی نہیں کیا جاسکتا اور جب کمپنی کی جانب سے معافی کی طلب نہیں ہے تو دائن کی طرف بھی معاف کرنے کو مقدر نہیں مانا جاسکتا۔ لہٰذا مولانا مدظلہ کا یہ فرمانا کہ ''جو شخص بھی لمیٹڈ کمپنی سے معاملہ کرتا ہے وہ علی بصیرة کرتا ہے اس میں کسی قسم کا دھوکہ یا فراڈ نہیں ہوتا'' حقیقت سے بہت دُور ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔