ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
ساتھ وابستہ ہوں گی۔ اِس صورت میں ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ ہم ان حقیقی اشخاص کو نظر انداز کر کے ادارے کی فرضی شخصیت کا اعتبار کریں اور حقوق و ذمہ داریوں کو اس کے ساتھ وابستہ کریں۔ لہٰذا حقوق و ذمہ داریوں کی نسبت لامحالہ حقیقی شخص کی طرف ہوگی۔ کمپنی کی حقیقت یہ ہے کہ کمپنی کے ڈائریکٹر اپنے سرمایہ پر بھی کام کرتے ہیں اور دیگر حاملین حصص کے سرمایہ پر بھی اور شرکت املاک کے بعد ان کے اجیر بن کر ان سے اجرت وصول کرتے ہیں۔ مولانا عثمانی مدظلہ اس کو اجارہ کے بجائے شرکت عنان کا معاملہ کہتے ہیں اور ڈائریکٹران کو ورکنگ پارٹنر یعنی عمیل اور دیگر حاملین حصص کو سلیپنگ پارٹنر یعنی غیر عمیل مانتے ہیں۔ غرض معاملہ خواہ اجارہ کا ہو یا شرکت عنان کا بہرحال ڈائریکٹران کمپنی کے کاروبار میں اپنی طرف سے اصیل اور دیگر حاملین حصص کی طرف سے وکیل بن کر تصرف کرتے ہیں۔ کاروبار کا سرمایہ بھی ان ہی کا ہوتا ہے اور ان کے تصرفات کا فائدہ بھی ان ہی کو بالواسطہ اور بلاواسطہ ہوتا ہے اور العبرة للمعانی لا للالفاظ یعنی اعتبار الفاظ کا نہیں معنی کا ہوتا ہے اس لیے کمپنی کو کوئی لاکھ معنوی شخصیت کہتا رہے لیکن اس کی معنوی شخصیت کالعدم ہے اور حقیقی اشخاص ہی کا اعتبار ہوگا یعنی ڈائرکٹران کا اصل ہو کر اور دیگر حاملین حصص کا ان کے مؤکل ہو کر۔ کمپنی کے ڈائرکٹران اور حاملین حصص کمپنی کے تمام دیون و قرضوں کے ذمہ دار ہوں گے : جب یہ ثابت ہوگیا کہ مشترکہ سٹاک کمپنی کی معنوی شخصیت کا اعتبار نہیں ہے بلکہ حقیقی اشخاص یعنی ڈائریکٹران اور حاملین حصص کا اعتبار ہے اور حقوق و ذمہ داریوں کا تعلق بھی ان کے ساتھ ہے تو لازم آئے گا کہ دیون اور قرضے خواہ کتنے ہی ہوں وہ سب ان کے ذمہ دار ہوں گے۔ -1مولانا تقی عثمانی مدظلہ کے بیان کردہ محدود ذمہ داری کے فقہی نظائر اور اُن کا جواب : پہلی نظیر : مالک کی طرف سے تجارت کی اِجازت پانے والا غلام : مولانا لکھتے ہیں : ''فقہ میں لمیٹڈ کمپنی کی ایک نہایت دلچسپ نظیر موجود ہے جو لمیٹڈ کمپنی سے بہت ہی قریب ہے۔ وہ عبد ماذون فی التجارة ہے۔ یہ اپنے آقا کا مملوک ہوتا ہے اور اس کو آقا کی طرف سے تجارت کی اجازت ہوتی ہے۔ جو تجارت وہ کرتا ہے وہ بھی مولیٰ (آقا) کی مملوک