ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
یہ فرمایا ہو کہ اِس رات میں شب ِقدر کی طرح جاگنا زیادہ اجروثواب کا باعث ہے۔ نہ تو آپ کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے، اورنہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خودحضور ۖ جاگے اورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اِ س کی تاکید فرمائی اورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طورپر اس کا اہتمام فرمایا ۔ پھر سرکارِ دوعالم ۖ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد (تقریباً) سوسال تک صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم دنیا میں موجود رہے ، اِس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ٢٧رجب کو خاص اہتمام کرکے منایا ہو۔لہٰذا جو چیز حضور اقدس ۖ نے نہیں کی اورجو آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہیں کی، اُس کو دین کاحصہ قراردینا یااُس کوسنت قراردینا یا اُس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں(معاذاللہ) حضور ۖ سے زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی ہے یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے یہ عمل نہیں کیا تو میں اِس کو کروں گا تو اُس کے برابر کوئی احمق نہیں۔ (اصلاحی خطبات ج١ ص٤٨تا ٥١) حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمہم اللہ اورتبع تابعین رحمہم اللہ دین کو سب سے زیادہ جاننے والے دین کو خوب سمجھنے والے اوردین پر مکمل طورپر عمل کرنے والے تھے ۔اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اُن سے زیادہ دین کو جانتا ہوں یا اُن سے زیادہ دین کا ذوق رکھتا ہوں یا اُن سے زیادہ عبادت گزارہوں تو حقیقت میں وہ شخص پاگل ہے، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا ۔ لہٰذا اِس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے ۔ یوں تو ہر رات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے۔ لہٰذا آج کی رات بھی جاگ لیں، کل کی رات بھی جاگ لیں، اسی طرح ستائیسویں رات کو بھی جاگ لیں ،لیکن اِس رات میں اوردُوسری راتوں میں کوئی فرق اورکوئی نمایاں اِمیتاز نہیں ہونا چاہیے ۔ (اصلاحی خطبات ج١ ص٥١، ٥٢)