ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
س لیے وہ اس کی تمام ادائیگیوں کا ذمہ دار بن سکتا ہے۔'' خط کشیدہ الفاظ یعنی ''ہر حامل حصص یا ہر شریک'' میں عموم کی وجہ سے غیر عمیل شریک بھی داخل ہے اور ہر وہ حامل حصص بھی جو تجارت میں عملاً شریک نہیں۔ لیکن دُوسرے ہی لمحے مولانا یہ لکھتے ہیں : ''البتہ پرائیویٹ کمپنی کے غیر عمیل شریک یا حامل حصص جو تجارت میں عملاً شریک نہیں ہیں اُن کی ذمہ داری محدود ہو سکتی ہے۔'' -2 مولانا مدظلہ کی اِس بات کو بھی تسلیم کرلیا جائے کہ پرائیویٹ کمپنی کے عمیل شرکاء جو تجارت میں عملاً شریک ہیں اور روز مرہ کے کاروباری معاملات اور کمپنی کے اثاثوں اور قرضہ جات کی تفصیل سے واقف ہوتے ہیں اور نہیں تو ہوسکتے ہیں ان کی ذمہ داری محدود نہیں ہونی چاہیے تو پھر یہی بات ہم پبلک کمپنی کے ڈائریکٹران کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ روز مرہ کے کاروباری معاملات سے واقف ہوتے ہیں اور تمام اثاثوں اور قرضہ جات کی تفصیل ان کے سامنے ہوتی ہے کیونکہ وہ خود ہی سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا ان کی ذمہ داری بھی محدود نہیں ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں خود مولانا مضارب اور رب المال کی نظیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : '' لیکن یہاں شرعی نقطہ نظر سے اصل اشکال یہ ہے کہ مضاربت میں رب المال کی ذمہ داری تو محدود ہوتی ہے مگر مضارب کی ذمہ داری محدود نہیں ہوتی۔ لہٰذا دائنین رب المال کے سرمائے میں زائد دیون مضارب سے وصول کرسکتے ہیں چنانچہ دائنین کا ذمہ خراب نہیں ہوتا۔'' (اسلام اور جدید معیشت و تجارت ص 82) غرض مولانا مدظلہ کی خود کی بتائی ہوئی مضاربت کی نظیر کو دیکھیں یا اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ پبلک کمپنی کے ڈائریکٹران تمام امور سے نہ صرف واقف ہوتے ہیں بلکہ خود متصرف بھی ہوتے ہیں۔ مولانا مدظلہ کے پاس پبلک کمپنی کے ڈائریکٹر اور پرائیویٹ کمپنی کے ڈائریکٹر کے درمیان فرق کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے اور وہ جواب میں صرف اتنا کہتے ہیں کہ : ''لیکن کمپنی کے ڈائریکٹران کی ذمہ داری بھی محدود ہے اور خود کمپنی جو شخص قانونی ہے اِس کی ذمہ داری بھی محدود ہے۔''