ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
ہے کہ کمپنی ضرورت کے مواقع پر بنکوں وغیرہ سے قرض لے سکے گی اور اور جو لوگ کمپنی کے شیئر ہولڈرز بنتے ہیں ان کو یہ بات معلوم ہوتی ہے لہٰذا جب وہ پراسپکٹس کو دیکھ کر کمپنی کے حصہ دار بنتے ہیں تو ان کی طرف سے گویا معنوی اجازت ہے کہ کاروبار کے لیے قرض لیا جاسکتا ہے اور جب رب المال مضارب کو قرض کی اجازت دے دے تو اس کی ذمہ داری محدود نہیں رہتی۔ لیکن اس شبہ کایہ جواب ہوسکتا ہے کہ پراسپکٹس ہی میں یہ بات بھی درج ہوتی ہے کہ شیئر ہولڈرز کی ذمہ داری محدود ہوگی جس کا مطلب یہ ہوا کہ حصہ داروں کی طرف سے کمپنی کو قرض لینے کی اجازت اس شرط کے ساتھ ہوتی ہے کہ ہم پر ان قرضوں کی ذمہ داری لگائے ہوئے سرمائے سے زیادہ نہ ہو۔ لہٰذا اس کی صحیح نظیر یہ ہے کہ رب المال مضارب کو اس شرط کے ساتھ قرض لینے کی اجازت دے کہ اس کی ذمہ داری وہ خود برداشت کرے۔'' (اسلام اور جدید معیشت و تجارت ص 82) ہم کہتے ہیں کہ مولانا کا یہ پورا کلام تین اعتبار سے محل ِنظر ہے : -1 مولانا مدظلہ نے یہاں دین اور قرض کو خلط کر دیا۔ مضاربت مطلق ہو تو مضارب کوقرض لینے کا اختیار نہیں ہوتا جب تک رب المال خود اس کی مستقل طور پر اجازت نہ دیدے جبکہ مضارب کو نقد یا اُدھار مال خریدنے اور فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ مال اُدھار خریدنے سے دیون واجب ہوتے ہیں۔ مضارب نے رب المال کی اجازت کے بغیر قرض لیے ہوں تو ان کی ذمہ داری تو مضارب پر ہوگی لیکن دیون کی ذمہ داری تو رب المال پر ہوگی۔ مثلاً رب المال نے مضارب کو ایک لاکھ روپیہ دیا۔ مضارب نے پچاس ہزار کا سامان ادھار خریدا۔ پھر کسی قدرتی آفت سے یہ سارا مال اور نقدی ہلاک ہو گئی تو رب المال مزید پچاس ہزار کا ضامن ہوگا۔ -1 ویملک المضارب فی المطلقة التی لم تقید… البیع ولو فاسدا بنقد و نسیئة متعارفة (در مختار ص 470, 540) ولا یملک الاقراض والا ستدانة و ان قیل لہ ذلک ای اعمل برایک لانھما لیسا من