ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
صنیع التجار فلم یدخلا فی التعمیم ما لم ینص المالک علیھما فیملکھما (درمختار ص 541ج 4) (قولہ والاستدانة) کما اذا اشتری سلعة بثمن دین و لیس عندہ من مال المضاربة شئی من جنس ذلک الثمن۔ فلوکان عندہ من جنسہ کان شراء علی المضاربة ولم یکن من الاستدانة فی شئی (رد المختار ص 541 ج 4) -2 مولانا مدظلہ کا یہ آخری جملہ کہ ''رب المال مضارب کو اس شرط کے ساتھ قرض لینے کی اجازت دے کہ اس کی ذمہ داری وہ خود برداشت کرے'' اگر اس سے مراد مطلق قرض ہے خواہ کتنی ہی مقدار کا ہو تو اس شرط کو لگانا ہی فضول ہے کیونکہ مضاربت مطلق ہو تب بھی مضارب کو قرض لینے دین کا اختیار نہیں ہوتا۔ یہ اختیار اسی وقت ملتا ہے جب رب المال خود اس کی مستقل طور پر اجازت دے دے۔ -3 اور اگر مولانا مدظلہ کی مراد ہے کہ سرمائے کی حد تک رب المال مضارب کو قرض لینے کی اجازت دیتا ہے زیادہ کی نہیں جیسا کہ یہ بات مولانا کے اس جملہ سے عیاں ہے کہ ''حصہ داران کی طرف سے کمپنی کو قرض لینے کی اجازت اس شرط کے ساتھ ہوتی ہے کہ ہم پر ان قرضوں کی ذمہ داری لگائے ہوئے سرمایے سے زیادہ نہ ہو۔'' تب بھی یہ بے بات کی بات ہے کیونکہ رب المال مضارب کو ایک لاکھ روپے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہیں قرض لینے کی اجازت ہے لیکن مجھ پر تمہارے لئے ہوئے قرض کا ذمہ میرے لگائے ہوئے سرمائے سے زیادہ نہ ہو گا۔ مضارب اس مشروط اجازت پر کسی سے دس ہزار روپے قرض لیتا ہے اور کل ایک لاکھ دس ہزار کا سامان خریدتا ہے۔ پھر کسی قدرتی آفت سے سارا مال ہلاک ہو جاتا ہے۔ اب مضارب رب المال کو کہتا ہے کہ تم نے سرمائے کی حد تک قرض لینے کی اجازت دی تھی اور میں نے صرف دس ہزار کا قرض لیا ہے۔ لہٰذا تم اس قرض کے دینے کے ذمہ دار ہو۔ اور یہ صورت دس ہزار روپے تو کیا صرف دس روپے کے قرض میں بھی جاری ہوتی ہے۔ غرض قرض میں محدود ذمہ داری کی صورت صرف یہ ہے کہ رب المال مضارب کو قرض لینے کی اجازت سرے ہی سے نہ دے تا کہ نہ تو رب المال پر قرض کی ذمہ داری آئے۔ اور نہ ہی اس کو قرض کا فائدہ حاصل ہو جو اس طرح ہوتا ہے کہ مضارب قرض کی رقم بھی تجارت میں لگاتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ نفع زیادہ