ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
پھر کہا گیا ہے کہ قرضدار جس کو حساب برابر کرنے تک جنت میں داخل میں داخلہ سے روک دیا جائے گا یہ وہ ہوگا جس نے لئے ہوئے قرض کو حماقت یا اسراف میں خرچ کیا ہو۔ رہا وہ جس نے کسی واجب حق کی وجہ سے مثلاً فاقہ کی وجہ سے قرض لیا ہو پھر اس کی ادائیگی کے بقدر مال نہ چھوڑا ہو تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت پر داخلہ سے نہ روکیں گے کیونکہ ایسی صورت میں پہلے تو حکمران کے ذمہ آتا ہے کہ وہ بیت المال سے اس کا قرضہ ادا کرے اور جب اس نے ادا نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کریں گے اس طرح سے کہ اس کے قرض خواہوں کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے کچھ دے کر راضی کرلیں گے۔ یہاں یہ بات زیادہ غور طلب نہیں کہ ماذون غلام اور کمپنی کے ڈائریکٹر جو قرض حاصل کرتے ہیں ان کو کوئی سخت مجبوری تو کیا عام مجبوری بھی نہیں ہوتی۔ تیسری نظیر : مضارب اور رَب المال مولانا لکھتے ہیں : ''جب تک رب المال مضارب کو دوسروں سے قرض لینے کی اجازت نہ دے مضاربت میں بھی رب المال کی ذمہ داری اس کے سرمائے تک محدود ہوتی ہے چنانچہ اگر رب المال نے مضارب کو سرمایہ دیا اور مزید قرض لینے کی اجازت نہیں دی پھر کاروبار کے نتیجہ میں مضارب پر دیون واجب ہوگئے تو ایسی صورت میں رب المال کا زیادہ سے زیادہ اس کے سرمائے کی حد تک نقصان ہوگا اس سے زیادہ کا رب المال سے مطالبہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے زیادہ کا ذمہ دار مضارب ہوگا کیونکہ اس نے رب المال کی اجازت کے بغیر قرضے لیے ہیں اس لیے وہی ان کا ذمہ دار ہے۔ ایسے ہی شیئر ہولڈر جو خود عمل نہ کر رہا ہے تو اس کی ذمہ داری کے محدود ہونے کی شرط مضاربت کے اصول پر صحیح معلوم ہوتی ہے۔ البتہ یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ تقریباً تمام کمپنیوں کے پراسپکٹس میں یہ بات درج ہوتی