ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
کرسکتے ہیں اس سے مزید کا مطالبہ نہیں کرسکتے… البتہ اگر وہ دوبارہ غنی ہو جائے تو اَب پھر مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر مفلس ہونے کی حالت میں اِس کی موت واقع ہو جائے تو خراب الذمة ہو جاتا ہے، ان کے دیون ادا ہونے کی کوئی صورت نہیں رہتی۔'' (اسلام اور جدید معیشت و تجارت ص 82) ہم کہتے ہیں کہ مولانا مدظلہ کا یہ کہنا کہ مفلس مقروض سے مزید مطالبہ صرف اس کے غنی ہونے پر ہی کیا جاسکتا ہے دُرست نہیں کیونکہ افلاس ثابت ہونے کے بعد قرض خواہ اس کا پیچھا کرسکتا ہے تاکہ وہ جو کچھ کمائے اس میں سے کچھ وصول کرتا رہے۔ ردالمحتار میں ہے قال فی انفع الوسائل، و بعد ما خلی القاضی سبیلہ فلصاحب الدین ان یلازمہ فی الصحیح… ولہ ان یلازمہ بنفسہ و اخوانہ و ولدہ ممن احب (مطلب فی ملازمة المدیون) اور اگر ماذون غلام اور مفلس مقروض مر بھی جائیں تب بھی آخرت کے اعتبار سے دوسروں کا حق ان کے ذمہ باقی رہتا ہے اور آخرت میں ان کو حساب بیباق کرنا پڑے گا اور مسلمانوں کی معیشت بہرحال آخرت کے مواخذے سے بے پرواہ نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا تدبیر معاش کی کوئی ایسی صورت تجویز کرنا یا اس کی تصویب کرنا بلکہ اس پر شرعی دلائل کی ڈھال چڑھانے کی کوشش کرنا اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ -1 عن سلمة بن الاکوع قال کنا جلوسا عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذ اتی یجنازة فقالواصل علیھا فقال ھل علیہ دین قالوا لا فصلی علیھا ثم اتی بجنازة اخری فقال ھل علیہ دین قیل نعم قال فھل ترک شیئا قالوا ثلاثة دنانیر فصلی علیھا ثم اتی بالثالثة فقال ھل علیہ دین قالوا ثلاثة دنانیر قال ھل ترک شیئا قالوا لا قال صلوا علی صاحبکم قال ابوقتادة صل علیہ یا رسول اللہ و علی دینہ فصلی علیہ (بخاری) حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ ۖ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا اور لوگوں نے درخواست کی کہ آپ جنازہ پڑھا دیجئے۔ آپ ۖ نے پوچھا کیا میت کے ذمہ کچھ قرض ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ نہیں تو آپ ۖ نے اُس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا۔