ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2008 |
اكستان |
|
ہوتی ہے۔ اس پر اگر دیون واجب ہوں تو وہ اس غلام کی قیمت کی حد تک محدود ہوں گے۔ اس سے زیادہ کا نہ غلام سے مطالبہ ہوسکتا ہے اور نہ مولیٰ سے '' (اسلام اور جدید معیشت و تجارت ص 83) ہم کہتے ہیں کہ مولانا مدظلہ کی یہ بات دُرست نہیں ہے کیونکہ : ماذون غلام اگر زندہ ہو تو صرف اتنا نہیں ہے کہ غلام کو فروخت کیا جائے گا اور اس کی قیمت قرض خواہوں میں تقسیم کر دی جائے گی بلکہ قرض خواہوں کو حق حاصل ہے کہ وہ غلام کو فروخت نہ ہونے دیں اور اس سے کمائی کروا کر اپنے قرضے پورے وصول کریں اور اگر غلام فروخت بھی کر دیا جائے تب بھی قرض خواہوں کو حق حاصل ہے کہ جب کبھی وہ آزاد ہو جائے تو اس سے اپنے قرضوں کی واپسی کا مطالبہ کریں۔ وکل دین وجب علیہ بتجارة… یتعلق برقبتہ … یباع فیہ و لھم استسعاء ہ ایضا (درمختار) (قولہ یباع فیہ) ولا یجوز بیعہ الا برضی الغرماء او بامر القاضی لان للغرماء حق الاستسعاء لیصل الیھم کمال حقھم (رد المختار) ویقسم ثمنہ بالحصص… وطولب الماذون بما بقی من الدین زائدا عن کسبہ و ثمنہ بعد عتقہ لتقرر الدین فی ذمتہ و عدم وفاء الرقبة (درمختار) اور ہدایہ میں ہے۔ دیونہ متعلقة برقبة یباع للغرماء الا ان یفدیہ المولی… والجامع دفع الضرر عن الناس ویقسم ثمنہ بینھم بالحصص لتعلق حقھم بالرقبة… فان فضل شئی من دیونہ طولب بہ بعد الحریة لتقرر الدین فی ذمتہ و عدم وفاء الرقبة'' دُوسری نظیر : مفلس مقروض مولانا لکھتے ہیں : ''شخص حقیقی مفلس (دیوالیہ) ہو جائے تو دائنین صرف اس کے اثاثوں سے دین وصولی