ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
نہیں معلوم ہوتی ،واللہ اعلم۔ چونکہ حضرات ِ اہل ِبیت پر فاقہ کی سخت حالتیں گزرتی تھیں اور جناب سیدة النسائ بوجۂ لطافت و نزاکت ِطبیعہ کے اِن مشقتوں کی دُشواری سے متحمل نہ ہوسکتی تھیں اور سخت تکلیف ہوتی تھی، اِس وجہ سے حضور ۖ نے یہ دُعاء فرمائی، جو مقبول ہوئی۔ اور معلوم کرنا چاہیے کہ بندہ کی بندگی کا یہ اِقتضا ہے کہ ہر حال میںراضی رہے اور کسی وقت میں فلاحیت اور سہولت کی دُعاء سے غافل نہ ہو کہ اکثر سخت تنگی اور مصیبت میں اللہ تعالیٰ کی اِطاعت اور عبادت میں فرق آتا ہے اور پریشانی کی وجہ سے قلب ٹھکانے نہیں رہتا۔ اور اصل مقصود عبادت اور محبت اور اِطاعتِ ِالٰہی ہے اور محبت و راحت سے جو عبادت ہوتی ہے اُس میں توجہ کامل ہوتی ہے اور وہ عبادت افضل ہے اُس عبادت سے بحیثیت عبادت ہونے کے جو تنگی اور پریشانی میں ہوتی ہے۔ چنانچہ امام غزالی رحمة اللہ الباری نے جواہر القرآن اور اِحیاء العلوم میں تصریح فرمائی ہے اور اگر سختی و تنگی کا سامنا ہو تو بھی شکر کرے اِس لیے کہ مصائب اور شدائد بھی نعمتیں ہیں۔ بڑا ثواب ملتا ہے اور نفس کی اُن سے بڑی اِصلاح ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ حکیم ہیں جو حالت جس شخص کے لیے جس وقت میں بہتر ہوتی ہے وہ اُس کو مرحمت فرماتے ہیں مگر (بلاعذرِ قوی) اپنی طرف سے عافیت کا خواہان اور دُعاء کرنے والا رہے۔ مستند حدیث میں ہے کہ جنت میں اوّل وہ لوگ داخل ہوں گے جو خدا کا بہت شکر کرتے ہیں مصیبت و راحت میں۔ مقصود یہ ہے کہ ہرحال میں شکر اور رضا بقضا ضرور ہے اور رضا کا اعلیٰ رُتبہ ہے کہ طبعی کراہت بھی جاتی رہے اور زبان سے بھی کوئی لفظ خلاف ِمرضیٔ خالق کے نہ نکلے۔ اور طبعی کراہت گو اِختیار سے باہر ہے لیکن بعد عادتِ تحمل و برداشت یہ مَلَکہ اور قوت بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ اِنسان طبعی کراہت سے بھی باز رہے اور یہ سلوک کا اعلیٰ مقام ہے۔ اور روضة الاحباب میں ہے کہ شیخ نجم الدین عمرو نسفی اپنی تفسیر سورۂ فاتحہ میں روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسولِ مقبول ۖ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے۔ دیکھا کہ آپ ملول اور غمگین بیٹھی ہیں اور رورہی ہیں۔ پس حضور ۖ نے دریافت کیا حضرت سیّدہ سے کہ کس وجہ سے ملول اور غمگین ہو؟ عرض کیا یارسول اللہ ۖ بطورِ حکایت اور اِظہارِ اَمر واقعی بجواب ِآنحضرت ۖ عرض کرتی ہوں نہ بطریق شکایت مصیبت ِحق تعالیٰ (کس قدر اَدب ملحوظ رکھا جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی توحید و عظمت جاگزین ہے